وفاقی وزیر سائنس کا غیرسنجیدہ رویہ

ڈاکٹر میشال نذیر  ہفتہ 7 دسمبر 2019
جب سے فواد چوہدری سائنس کے منسٹر بنے ہیں تب سے ان کی خوب میڈیا ٹرولنگ جاری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جب سے فواد چوہدری سائنس کے منسٹر بنے ہیں تب سے ان کی خوب میڈیا ٹرولنگ جاری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جب سے فواد چوہدری سائنس کے منسٹر بنے ہیں (یعنی 19 اپریل 2019 سے) تب سے ان کی خوب میڈیا ٹرولنگ جاری ہے۔ مگر ماننا پڑے گا ان کی ڈھٹائی کو کہ اب تک ٹکے ہیں بغیر کسی میرٹ کے۔ یہ تو صرف نئے پاکستان میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ایکسپریس میں ایک بلاگر نے ان کی اس حوالے سے خوب خبر لی، اس کے علاوہ بھی کافی لوگوں نے لکھا، مگر کوئی اثر نہیں اس حکومت پر۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: فواد چودھری صاحب! سائنس میں چودھراہٹ نہیں چلتی

پچھلے دنوں فواد چوہدری صاحب کو لائیو سننے کا جو موقع ملا، وہ واقعی خود میں ایک بھیانک خواب جیسا ہی لگا۔ جس تبدیلی کا وعدہ کرکے عمران خان آئے ہیں وہ شاید یہی وعدہ تھا۔ یکساں تعلیمی نظام کا وعدہ اور پھر ایک آرٹس کے شعبے سے وابستہ شخص کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر لگا دینا۔ اس سے بڑا اس ملک کے ہونہار لوگوں کے ساتھ مذاق اور کیا ہوسکتا ہے۔

پچھلے دنوں کراچی یونیورسٹی میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں فواد صاحب مدعو تھے، اس موقع پر ان کے شاندار الفاظ سننے کا موقع ملا۔ پہلی بات ہمارے منسٹرز کے پاس بہت فالتو وقت ہے اور پیسہ گورنمنٹ کے پاس بہت فالتو ہے۔ دونوں کا اس معاملے میں آپس میں بہت تال میل ہے کہ کس طرح سے عوام کا پیسہ ضائع کرنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کہیں بھی ایسی کانفرنسز جب ہوتی ہیں تو فیلڈ سے متعلقہ لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے، تاکہ ان کے کام کو نہ صرف سراہا جائے بلکہ طالب علموں کو ان سے براہ راست بات کرنے کا موقع بھی ملے۔ نا کہ ہماری طرح منسٹرز آجاتے ہیں اور وہ بھی وہ، جس کا سائنس سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔

اب آتے ہیں ان کی شاندار تقریر پر۔ جونہی وہ ڈائس پر آئے، ایک پرچہ ان کے ہاتھ میں تھا، جو کہ انگلش میں تھا۔ اندازہ لگائیں کہ بغیر سامعین کو دیکھے، بغیر کسی فل اسٹاپ تین سے چار منٹ میں وہ پرچہ انہوں نے فٹافٹ پڑھ ڈالا۔ پھر خدا خدا کرکے سامعین کو دیکھنے کا شرف بخشا۔ مشکل سے یہ صاحب دو سے تین لائنز ہی انگلش میں بول پائے اور پھر میڈیا کے لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ ہمارے میڈیا کے لوگ آئے ہیں تو اردو میں بات کرتا ہوں۔ اور پھر پوری تقریر اردو میں ہی کی۔ اردو میں ان کی جگتیں جو شروع ہوئیں تو وہ ختم نہ ہوئیں۔ وکیل ہوتے ہوئے بھی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا منسٹر ہونے کی لوجک ان کی زبانی کچھ یہ تھی کہ سائنس کے لوگ کیونکہ سیاست میں نہیں آتے تو پھر آپ پر وکیل ہی لگیں گے۔ ان کے حساب سے پڑھنا پڑھانا تو گوگل سے بھی ہوجاتا ہے، عمارتوں کو اچھا بنائیں۔ مانا کہ عمارتوں کا اچھا ہونا بہت ضروری ہے، مگر ٹیچرز کے بغیر پڑھائی ممکن ہے کیا؟ اتنی اہمیت کی سائنسی کانفرنس میں آپ اسلام آباد سے کیا یہ مذاق کرنے کےلیے آئے تھے؟

اس وقت وہاں سو کے قریب باہر کے پروفیشنلز، پروفیسرز اور طالب علم موجود تھے۔ اور وہاں ہمارے سائنس کے منسٹر اردو میں طنزومزاح فرما رہے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری حکومت کتنی سنجیدہ ہے تعلیم اور سائنس کے حوالے سے۔ پھر جو انہوں نے سائنسی حکمتیں سنانا شروع کیں کہ یہ تحقیق بھی پاکستان میں ہوئی، فلاں بھی ہوئی۔ کیا کیا ایجادات پاکستان میں ہوئیں مگر کسی کو نہیں پتہ، مگر ان کو ضرور پتہ چل گیا ہے۔

قصہ مختصر، ان کی تقریر نے بہت مایوس کیا۔ ان کا منسٹر ہونا ہی میرٹ کا سب سے بڑا قتل ہے۔ جتنا مرضی پڑھ لیں، اس ملک میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کچھ دن پہلے ان صاحب نے فرمایا کہ آپ لوگ نوکریوں کےلیے گورنمنٹ کی طرف نہ دیکھیں، ہم تو ویسے ہی بہت سے ڈپارٹمنٹ بند کرنے والے ہیں۔ جب سوشل میڈیا کے ذریعے کافی لعن طعن ہوئی تو وزیراعظم نے ان کو ایسے بیانات نہ دینے کےلیے پابند کیا۔ مگر وہ فواد چوہدری ہی کیا جو رک جائے۔ ان کے دائیں بائیں سائنس دان رکھنے سے ان کی خود کی سائنس سے لاعلمی چھپ نہیں جاتی، جس کا لائیو مظاہرہ اس کانفرنس میں دیکھنے کو ملا۔

یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ جس شخص کو سائنس کا پتہ نہیں تو وہ دائیں بائیں والوں کی ہی سنے گا۔ تو پھر اس منسٹر کا وہاں کیا کردار ہے۔ جسے سائنس کا پتہ نہیں تو وہ وہی دیکھے گا اور سنے گا جو اسے اردگرد کے لوگ دکھائیں گے، اور سنائیں گے۔ جب کہ اس پوسٹ پر وہی شخص ہونا چاہیے جو معتدل رہ کر تمام صوبوں کےلیے مناسب سائنس کی پالیسیز بناسکے۔ جو کہ بدقسمتی سے نہیں ہورہا۔

ایچ ای سی ایک ایسا ڈریکولا ہے، جو بہت زیادہ بجٹ بھی لے رہا ہے، مگر اس کے نتائج حسب منشا نہیں مل رہے۔ جس کی سب بڑی وجہ اس میں بہت زیادہ بے ضابطگیاں ہیں۔ بہت اسکینڈل سامنے آئے، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس لیے ادارے میں ترامیم کی اشد ضرورت ہے۔ اس کےلیے ظاہر ہے کہ ایک ایسا شخص چاہیے جو اس سسٹم کو اچھی طرح سے جانتا ہو۔ ایچ ای سی کا ایک پچھلا ڈائریکٹر، جس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ جعلی نکل آتا ہے، وہ استعفیٰ دیتا ہے اور نکل جاتا ہے۔ جو اس نے اتنے سال سروس کی، اس کا حساب کون لے گا؟ نیب اس سب معاملے میں کہاں ہے؟ اس حوالے سے قانون سازی آخر کب ہوگی؟

پی ایچ ڈیز جن کو نوکریاں نہیں مل رہیں، اس کا اب تک کوئی حل نہیں نکل سکا۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں گھوسٹ اساتذہ جو تنخواہیں لے رہے ہیں، مگر پڑھا نہیں رہے، اور باہر کے ملکوں میں بھی براجمان ہیں۔ اب تک اس حوالے سے بھی مکمل خاموشی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ریٹائرمنٹ کے بعد پروفیسر مافیا ہے، جو ریٹائر ہی نہیں ہوتے، اپنے عہدوں کو چھوڑنے کےلیے تیار ہی نہیں۔ عہدوں پر انہیں ایکسٹینشن ملتی چلی جاتی ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں ملتیں۔ وہ کرسی چھوڑیں تو کسی اور کو بھی موقع ملے۔ آخر اس حوالے سے قانون سازی کب ہوگی؟ جو جتنے بڑے عہدے پر ہے، اتنا ہی وہ اپنے پاور کا ناجائز استعمال کررہا ہے۔

کیا یہ مسائل وزیراعظم کے علم میں نہیں ہیں؟ جس تعلیم کےلیے یہ ووٹ لے کر آئے، اس کے ساتھ کیا حشر ہورہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ تعلیم کے مسائل حل کرنے کےلیے ان کو کوئی قابل شخص نہیں ملا؟

وزیراعظم کو چاہیے کہ طنزومزاح کی ایک نئی وزارت ہی بنا دیں، جس کا سربراہ فواد چوہدری کو بنائیں۔ کچھ تو تبدیلی آئے گی، کوئی اور تبدیلی تو آنہیں رہی۔ کم از کم جو اس ملک کے غریب پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ مذاق ہے کہ ایک انتہائی غیر متعلقہ شخص کو بغیر کسی میرٹ کے منسٹر بنایا ہوا ہے، وہ تو بند ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر میشال نذیر

ڈاکٹر میشال نذیر

بلاگر حیاتی کیمیا (بایو کیمسٹری) میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اسلام اور سائنس کے موضوع سے خصوصی شغف رکھتی ہیں۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد ہورہا ہے، اس سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر، معاشرے کی وہ تصویر ہے جس میں دھنک کے سارے رنگ ہیں؛ اور جسے دیکھنے کےلیے خوبصورت آنکھ چاہیے، جو ہر رنگ میں چھپی خاموشی، شور، سکون، خوشی، غم، خیال، تصور، غرض کہ ہر معاشرتی احساس کو دیکھ، سن، سمجھ اور برداشت کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔