قرۃ العین طاہرہ زرین تاج

سعد اللہ جان برق  اتوار 15 دسمبر 2019
مظلوم ومحکوم عورت کی توانا آواز

مظلوم ومحکوم عورت کی توانا آواز

کافی عرصہ ہوا علامہ نیازفتح پوری کے رسالے ’’نگار‘‘ میں نیاز صاحب نے اس عجیب وغریب انوکھی اور حیران کن شخصیت قرۃ العین طاہرہ زرین تاج پر ایک مضمون لکھا تھا۔

باقی ادبی تذکروں اور فارسی شاعری میں اس بے چاری معصوم و مظلوم اور ساتھ ہی بہترین شاعرہ کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر فن وہنر کو دین سے منسلک کیا جاتا ہے، یعنی پہلے اسے کلمہ پڑھوا کر مروجہ دینی اتھارٹیوں سے خود تسلیم کرنا ہے تب وہ کسی فن کو ہاتھ لگا سکتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو کوئی کتنا ہی باکمال کیوں نہ ہو اس پر کفر کا فتویٰ لگاکر نابود کردیا جاتا ہے۔ قرۃ العین طاہرہ بھی اسی المیے کا شکار ہوئی بلکہ وہ بجائے خود ایک مجسم المیہ تھی۔

اس کی بتیس سال کی مختصر سی زندگی کو جابرانہ اور مردانہ قوتوں نے سراپا گریہ بناکر رکھ دیا۔ عام طور پر اسے ’’بہائی‘‘ مذہب کی پیروکار کہہ کر قابل نفرت تب بھی بنایا گیا تھا اور بعد میں بھی لیکن کسی نے اس کی بے رحم زندگی کو صحیح نظر سے نہیں دیکھا ہے۔ بہائی مذہب ایک چوں چوں کا مربہ اور مکس اچار ہے۔

اس کا بانی محمدعلی باب بجائے خود ایک ابنارمل جنونی اور نفسیاتی مریض آدمی تھا۔ وہ جاہ طلبی اور اقتدار پسندی کے جنون میں مبتلا تھا اور اپنے اس جنون کے لیے اس نے مذہب کا راستہ چنا۔ اس کے نظریات بھی عجیب وغریب تضادات سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ بھی ان بہت سارے ابنارمل لوگوں میں سے تھا جو کسی اور راستے میں اپنی انفرادیت پسندی بلکہ نرگسیت کی راہ نہ پاکر مذہب کو اپنا آلہ بناکر استعمال کرتے ہیں۔ دوسری طرف براسراقتدار اشرافیہ کے زدگان بھی کسی تنکے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

چنانچہ اکثر ننگ دھڑنگ میلے کچیلے غلیظ اور مردار لوگوں کو بھی کچھ نہ کچھ عقیدت مند مل جاتے ہیں اور اسے بانس پرچڑھا کر اور بھی پاگل بنادیتے ہیں۔ چنانچہ محمدعلی باب بھی ایک ایسا شخص تھا جو اپنے آپ کو نبی بھی کہتا تھا خدا بھی اور حضرت علیؓ بھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ٹھیک ہے ’’نبی‘‘ کوئی نہیں آسکتا لیکن خدا خود تو انسانی روپ میں آسکتا ہے اور وہ میں ہوں۔ یہاں اس کے بے ترتیب منتشر اور لغو نظریات میں ہندو دھرم کے اوتاروں کا عنصر بھی آجاتا ہے۔

وہ اپنے کو ’’باب الابواب‘‘ بھی کہتا تھا، کیونکہ رسول اللہﷺ کی ایک حدیث ہے، میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ۔ محمدعلی باب نے بھی کہا کہ میں علیؓ یعنی علم کا دروازہ اور اصل میں خدا کا اوتار ہوں۔ یہ سب کچھ خرافات ایک طرف لیکن اس نے ’’بے پناہ آزادی‘‘ کا علم اٹھایا تھا اور اسلام کے شعائر کو منسوخ کرکے مادرپدر آزادی کا پرچار کیا تھا۔

یہ بھی ایک فطری عمل ہے کہ جب معاشرے پر جابر بے رحم اور لالچ وہوس کو دین قرار دینے والوں کا غلبہ ہوجاتا ہے تو اس کا ردعمل بھی ایسا ہی ہوتا ہے جیسا محمدعلی باب تھا، لیکن پھر یہ کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ ردعمل کو مہار ڈالے یا یوں کہیے کہ ایک انتہا کا ردعمل بھی مخالف انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔ قرۃ العین طاہرہ بھی اس محمدعلی باب کے جھانسے میں آگئی۔

کچھ بے مہار قسم کے لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ محمدعلی باب کی داشتہ تھی لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ وہ اپنے پس منظر کا شکار اور خواتین پر ہونے والے بے پناہ مظالم کا ردعمل تھی جو اس وقت کے مذہبی حلقوں نے عورت پر مسلط کیے ہوئے تھے۔ محمدعلی باب کے نظریے میں اسے عورتوں کی نجات کی روشنی نظر آئی تو اس کے ساتھ ہولی ادھر محمدعلی باب بھی اپنی عیاری اور مکاری کے لیے ایک حسین وجمیل اور ذہین وفطین شاعرہ کو نعمت غیرمترقیہ سمجھ کر فائدہ اٹھانے لگا۔

اس مظلوم عورت کو سمجھنے کے لیے اس کی اپنی زندگی کے نشیب وفراز ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔ وہ قزوین کے ایک دینی گھرانے میں ملا محمدصالح کے ہاں پیدا ہوئی تھی اور اس کی شادی ’’سات سال‘‘ کی عمر میں اپنے سے بہت بڑی عمر کے شخص یعنی تیس سالا چچازاد ملا محمد سے کردی گئی تھی۔

اب ہم اس قسم کے لوگوں کے جنسی نفسیات پر زیادہ روشنی نہیں ڈال سکتے، لیکن بجائے خود چار بیویوں کے ساتھ ساتھ حسب توفیق کنیزیں پالنے سے خود اندازہ ہوجاتا ہے ان کنیزوں کی حیثیت جائیداد منقولہ کی ہوتی تھی۔ انہیں خریدا بیچا جاسکتا تھا اور طبعیت تیز ہونے پر مارا بھی جاسکتا تھا۔ قرۃ العین کی عمر ’’سات سال‘‘ کا تصور کرلیجیے کہ اس عمر میں کسی بچی کو جنسی افعال کا شکار بنایا جائے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ خیر اپنے خاندان کی سخت گرفت میں اس کی دینی تعلیم بھی جاری رہی لیکن بے وقت جنسی عمل نے اسے جنسی طور پر ایک برف کا تودہ بنادیا۔

وہ عورت رہی ہی نہیں پتھر بن گئی۔ لیکن اس نے ایک بڑا جرم یہ کیا کہ اپنے گھر پر خواتین کو جمع کرکے ان میں آزادی کا ’’زہر‘‘ پھیلانے لگی جس کی پاداش میں چچا اور اس کے شوہر نے اسے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا، لیکن وہ نہ سدھری تو طلاق کا ٹھپا لگاکر اسے گھر سے نکال دیا گیا۔ تب وہ کربلا کے ایک عالم کاظم رشتی سے متاثر ہوئی۔ وہ ان سے ملنے کربلا پہنچی مگر کاظم رشتی دس دن پہلے وفات پاچے تھے۔

تب یہ کٹی پتنگ محمدعلی باب کے ہاتھ لگ گئی۔ محمدعلی باب اسے اپنے نظریات کے لیے استعمال کرنے لگا کیونکہ وہ ایک بے پناہ حسین وجمیل عورت ہونے کے ساتھ ذہین وفطین شاعرہ اور مقررہ بھی تھی۔ اسے صرف محمدعلی باب کے نظریات میں آزادی اور خاص طور پر مظلوم ومقہور عورت کی آزادی کا پہلو نظر آتا تھا۔

دوسرے معاملات سے اسے کوئی سروکار نہیں تھا۔ محمدعلی باب تو اپنی اقتدارپسندی کے جوش میں حکومت وقت کے ساتھ بھی بھڑگیا اور جگہ جگہ اس کے پیروکاروں اور سرکاری افواج کے درمیان لڑائیاں اور جھڑپیں ہونے لگیں، جن میں آخرکار محمدعلی باب کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا جانشین ’’بہاء اللہ‘‘ تھا، جس کے نام کی وجہ سے اس مذہب کو بہائی مذہب کہا جانے لگا جو کسی بھی لحاظ سے مذہب نہیں ہے بلکہ مادرپدر آزاد نظریات کا ایک پیچیدہ سا مرکب ہے۔ کہیں کہیں اب بھی بہائی لوگ قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ مرحوم سجادحیدریلدرم جو ترکی میں رہے تھے، نے اپنا تخلص ترکی زبان کا یلدرم رکھا جو غالباً شیر کو کہتے ہیں اور پھر شاید انہوں نے اپنی بیٹی کا نام بھی قرۃ العین (حیدر) اسی قرۃ العین طاہرہ زرین تاج سے متاثر ہوکر رکھا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ یہ ہمارا اندازہ ہو لیکن دونوں قرۃ العین میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے، لیکن قرۃ العین طاہرہ نسبتاً زیادہ جابر شاہی اور ملائی نظام میں متحرک ہوگئی تھی۔ عورتوں پر ظلم وستم سے نفرت اور ان کی آزادی کا جنون اس کے سر میں تھا وہ اسے لے ڈوبا۔ جنسی طور پر تو ہم نے پہلے بھی بتایا ہے کہ وہ بچپن مین شکار ہوکر پتھر بن گئی تھی اس لیے اس قسم کا کوئی داغ اس کے دامن پر نہیں۔ اگر کوئی خواہ مخواہ الزام لگاتا ہے تو وہ زیادتی کرے گا۔ آخر میں جب وہ گرفتار کرکے بادشاہ نصیرالدین قاچار کے سامنے پیش کی گئی تو شاہ قاچار نے بھی اسے شادی کی شرط پر آزاد کرنے کی پیش کش کی لیکن اس کا ایک ہی جواب تھا

توُ وملک وجاہ و سکندری

من و رسم و راہ قلندری

اگرآں خوش است درخوری

ورنہ ایں بدست دہ مرا سزا

’’آپ ملک ومنال اور سکندری والے ہیں اور میں قلندر اگر یہ قبول ہے تو ٹھیک ورنہ سزا دے دیجیے۔‘‘ قاچار کئی دن اسے یہ پیش کش کرتا رہا لیکن وہ نہیں مانی۔ آخرکار جب یہ کھلونا اس کے ہاتھ نہیں آیا تو اس کی موت کا حکم صادر ہوا۔ سزائے موت کے وقت یہ بھی ایک تخصیص ہے کہ اسے مارنے کے لیے کئی جلاد لائے گئے لیکن سب نے انکار کردیا۔ حالانکہ وہ حکم عدولی کی سزا بھی جانتے تھے لیکن وہ اس حسن مجسم کو کیسے مارتے؟

تارتار لباس، بکھرے ہوئے سوکھے بال اور گردوغبار میں لپٹا ہوا اس کا کہیں کہیں سے زخمی وجود۔ اس کی سنہری لیکن زرد جلد کے اندر سے کچھ ایسی روشنی پھوٹ رہی تھی جیسے کسی زرین بلوری فانوس کے اندر شمعیں جل رہی ہوں۔ آخر بڑی کوشش کے بعد ایک حبشی جلاد کو بہت ساری شراب پلا کر مدہوش کیا گیا اور اس سے یہ ’’نیک کام‘‘ کروایا گیا۔ پہلے اسے گلا گھونٹ کر مارا گیا پھر ایک اندھے کنوئیں میں اس کی لاش گرا کر اوپر سے پتھر، خاردار جھاڑیاں اور مٹی بھر کر ہموار کردیا گیا، تاکہ اس کا نام ونشان تک باقی نہ رہے۔ نہ کہیں اس کا جنازہ اٹھا نہ قبر کھودی گئی۔ نہ دوگز کفن پہنایا گیا اور نہ کہیں قبر یا مزار بننے دیا گیا

برمزار ماغریباں نے چراغے نے گلے

نے پر پروانہ نہ سوزدنے صدائے بلبلے

یہ بیت ہی شاید اسی کے لیے نورجہان نے کہا تھا، کیوں کہ ملکہ نورجہان کی قبر بھی بنائی گئی تھی مزار بھی اب تک ہے اور کافی عرصہ اس پر چراغے اور گلے کا سلسلہ بھی رہا ہوگا۔ البتہ بہادرشاہ ظفر کی یہ بات درست تھی کہ

پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں؟ کوئی چار پھول چڑھائے کیوں

کوئی آکے شمع جلائے کیوں؟ میں وہ بے کسی کا مزار ہوں

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آسکے میں وہ اک مشت غبار ہوں

قرۃ العین کا نام معروف ادبی تذکروں میں بہت کم لیا گیا ہے اور اس کا کلام بھی بہت کم لوگوں کی یادداشتوں میں باقی رہا ہے اور اس تھوڑے کلام سے اس کی شاعرانہ صلاحیت کا اندازہ ہوجاتا ہے ایک غزل کے چند شعر

گربتو افتدم نظرہ، چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو

شرح دہم غم تورا نکتہ بہ نکتہ مو بہ مو

اگر تم پر میری نگاہ پڑے چہرہ بہ چہرہ روبرو ہوجائے تو میں اپنا غم بیان کروں نکتہ بہ نکتہ مو بہ مو

ازئیے دیدن رخت، ہم چوصبافتادہ ایم

خانہ نہ خانہ، چر بہ در کوچہ بہ کوچہ کو بہ کو

جاناں تمہاری دید کی خاطر میں باد صبا کی طرح پھر رہی ہوں خانہ بہ خانہ، در بہ در، کوچہ بہ کوچہ، کو بکو

می رود از فراق تو، خون دل ازدو دیدہ ام

دجلہ بہ دجلہ، یم بہ یم،چشمہ بہ چشمہ جو بہ جو

تمہارے فراق میں میری دو آنکھوں سے خون دل بہہ رہا ہے دجلہ بہ دجلہ، دریا بہ دریا، چشمہ بہ چشمہ اور جو بہ جو

بردچشم وخال تو صید نمودہ مرغ دل

طبع بہ طبع دل بہ دل، مہر بہ مہر خو بہ خو

تمہارے چشم اور خال نے میرے دل کے پرندے کو شکار کیا ہے طبع بہ طبع، دل بہ دل، مہر بہ مہر، خو بہ خو

دردہان تنگ تو، عارض وعنبریں خطت

غنچہ بہ غنچہ، گل بہ گل، لالہ بہ لالہ، بو بہ بو

تیرے تنگ دہان تیرے عارض ورخسار اور عنبریں اور خط عنبریں تیرا، غنچہ بہ غنچہ، گل بہ گل، لالہ بہ لالہ، بو بہ بو

مہرتورا، دل خزیں بافتہ برقماش جان

رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ،تار بتار، پو بہ پو

دردل خویش طاہرہ گشت وندید خبرتورا

صحفہ بہ صحفہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ،تو بہ تو

طاہرہ نے اپنے دل کی کتاب میں دیکھا تو ہر جگہ تو ہی تو نظر آیا صحفہ بہ صحٖہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ تو بہ تو

یہ تھی قرۃ العین طاہرہ زرین تاج جو سات سال کی عمر میں جوان ہوئی یا کردی گئی اور بتیس سال کی عمر میں بے نشان کردی گئی اور اگر وہ نصیرالدین شاہ قاچار کی پیش کش مان لیتی تو ملکہ ایران بھی بن سکتی تھی بلکہ کئی اور بھی دین و دنیا کے اکابرین اس کے لیے آغوش دل وا کیے ہوئے تھے لیکن اس کی تعمیر بلکہ ’’تخریب‘‘ہی ایسی ہوئی تھی کہ اس کا سب کچھ مسمار اور ڈی مالش ہوگیا تھا

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔