- آصفہ بھٹو زرداری کی رکن قومی اسمبلی بننے کے بعد بھٹو خاندان کے مزار پر حاضری
- افغانستان میں فائرنگ سے تین غیرملکی سیاح ہلاک
- ہیٹ ویو کی وجہ سے مارگلہ پہاڑیوں پر لگنے والی آگ شدت اختیار کرگئی
- کوٹلی ستیاں میں گاڑی کھائی میں گرنے سے چار افراد جاں بحق
- سرکاری املاک اور اداروں کا دفاع کرنا جانتے ہیں، وزیر اطلاعات کا وزیراعلیٰ کے پی کو جواب
- صنعتوں کو کم لاگت پر بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائیں گے، وزیراعظم
- عمران خان کی رہائی کیلیے احتجاج، پی ٹی آئی قیادت کا کارکنان سے لازمی شرکت کا حلف
- شدید گرمی کے پیش نظرپنجاب میں یکم جون سے موسم گرما کی تعطیلات کا اعلان
- وزیراعلیٰ پنجاب کی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کو یقینی بنانے کی ہدایت
- کراچی میں کال سینٹر میں فائرنگ سے میٹرک کا طالب علم جاں بحق
- پی آئی اے کی نجکاری میں اہم پیش رفت، 8 کاروباری گروپس کا اظہار دلچسپی
- ممبئی کے کالج میں حجاب اور برقع پر پابندی عائد
- بانی پی ٹی آئی کیخلاف ٹیریان کیس ایک سال بعد سماعت کیلیے مقرر
- حکومت سندھ کا صوبے بھر میں مزید بسیں لانے کا فیصلہ
- ٓآرمی چیف کی ہاکی ٹیم سے ملاقات، تعاون کی یقین دہانی
- کینیڈین شہری نے کم وقت میں اسٹار وارز کی اسپیس شپ بنا ڈالی
- پاکستان نے سینٹرل ایشین والی بال چیمپئن شپ جیت لی
- مہنگائی کی شرح میں کمی کے باوجود 20 اشیا کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں
- فرانس میں نفرت آمیز سلوک؛ مسلمان دوسرے ممالک منتقل ہونے پر مجبور
- ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ
امن و محبت کی دھرتی سندھ میں گزشتہ دہائی میں انتہاپسندی بڑھی
کراچی: اپنی پوری تاریخ میں سندھ ہمیشہ ہی مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا مرکز رہا، جہاں لوگ پر امن طور پر ساتھ رہے تاہم آخری دہائی نے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی وجہ سے اس صوبے کو تقریباً ترقی پسند اور روادار صوفی ثقافت سے محروم کر دیا۔
جبری مذہب کی تبدیلی، توہین مذیب اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت جیسے واقعات نے سندھی معاشرے کو گہنا دیا ہے، ماہرین علم البشریات کا کہنا ہے کہ مذہبی مدارس کا غیر منظم طور پر پھیلنا اور ساتھ ہی فرقہ وارانہ اور عسکری گروہوں کا بڑھنا ایسے عوامل ہیں جنھوں نے 1980کے عشرے کے بعد صوبے میں انتہاپسندی کو بڑھاوا دیا۔
سندھ کے دیہی علاقوں میں بسنے والے ہندو برادری زیادہ کمزور ہوئے،سندھ اسمبلی کے ہندو ایم پی اے نند کمار گوکلانی نے کہا ، “میں آپ کو ان ہندو لڑکیوں سے متعلق قطعی اعدادوشمار نہیں دے سکتا جنھیںزبردستی اسلام قبول کرایا گیا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ پچھلی دہائی میں اس طرح کے سیکڑوں واقعات پیش آئے ہیں ۔صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے گولکانی جو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے تعلق رکھتے ہیں نے 41 ہندو لڑکیوں کی ایک فہرست مرتب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انھیں گزشتہ 6 ماہ کے دوران اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
بچیاں بدین ،ٹنڈو محمد خان ، میرپورخاص ، حیدرآباد ، سانگھڑ ، سکھر ، گھوٹکی ، ٹھٹھہ ،دادو اور جامشورو سمیت سندھ کے مختلف علاقوں کی رہنے والی تھیں۔میاں عبدالحق جو گھوٹکی کے درگاہ بھرچنڈی شریف کے میاں مٹھو اور پیر محمد ایوب جان سرہندی ضلع عمرکوٹ کی تحصیل سامارو میں واقع “سرہندی مزار” کے گدی نشین ہیں ، پر گزشتہ دہائی میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ جبری تبدیلیوں کے علاوہ کالعدم تنظیموں نے صوبے میں اپنا اثر و رسوخ پھیلادیا ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار اور ادیب نثار کھوکھر نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سندھی کمیونٹی کا نوجوان طبقہ صوفیا کی سرزمین پر انتہا پسندی پھیلانے والوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف امن اور محبت اور باہمی آہم آہنگی کے پیغام کے ذریعے جدوجہد کرنے والے اب خود بھی انتہا پسندوں کے حملوں کی زد میں ہیں۔
تحریک انصاف کے ایم این اے اور پاکستان ہندو کونسل کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے کہا کہ وفاقی حکومت مدارس کے نصاب پر کام کررہی ہے اور مدرسوں کیلیے صوبوں کی مشاورت سے پورے پاکستان میں نظر ثانی سلیبس نافذ کیا جائے گا۔ جب کوئی ہندو لڑکی اغوا ہوتی ہے تو اسے مدارس یا درگاہوں میں رکھا جاتا ہے جہاں جانے کی کسی کو ہمت نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مدارس کو ریگولیٹ کریں اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔