دل کی بیماری اور فالج سے بچنا ہے تو چائے پیجیے

ویب ڈیسک  منگل 21 جنوری 2020
عادی چائے نوشوں میں دل کی بیماری یا فالج کے سے مرنے کی شرح، چائے نہ پینے والوں سے بہت کم دیکھی گئی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عادی چائے نوشوں میں دل کی بیماری یا فالج کے سے مرنے کی شرح، چائے نہ پینے والوں سے بہت کم دیکھی گئی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بیجنگ: چین میں کی گئی دس سالہ تحقیق کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ لوگ جو ہفتے کے سات دنوں میں کم سے کم تین مرتبہ چائے پیتے ہیں، ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کے امکانات بھی چائے نہ پینے والوں کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ چائے کے فائدوں میں اہم ترین کردار ’’پولی فینولز‘‘ قسم کے مرکبات کا ہوتا ہے جو سیاہ اور سبز چائے کے علاوہ دوسری غذاؤں میں بھی وافر پائے جاتے ہیں۔

بیجنگ میں واقع ’’چائنیز اکیڈمی آف بایولاجیکل سائنسز‘‘ کے تحت ایک لاکھ سے زیادہ صحت مند افراد پر 10 سال تک کی گئی اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ پورے ہفتے میں تین سے چار مرتبہ صرف ایک ایک کپ چائے پینے والوں میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ ایسے افراد کی نسبت نمایاں طور پر کم تھا جو چائے نہیں پیتے۔

اس تحقیق میں ایک طرف یہ بات سامنے آئی کہ چائے سے وابستہ فوائد کی سب سے بڑی وجہ اس میں شامل ’’پولی فینولز‘‘ مرکبات ہیں تو دوسری جانب یہ بھی پتا چلا کہ سیاہ چائے کے مقابلے میں سبز چائے پینے والوں کو زیادہ فائدہ پہنچا۔ اسی طرح وہ لوگ جو طویل مدت سے زیادہ چائے پینے کے عادی تھے، یعنی وہ روزانہ کم سے کم ایک یا دو کپ چائے پیتے تھے، ان میں امراضِ قلب اور فالج کی شرح بھی کم چائے پینے والوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم تھی۔

عادی چائے نوشوں میں دل کی بیماری یا فالج کے باعث مرنے کی شرح، چائے نہ پینے والوں کے مقابلے میں 22 فیصد تک کم نوٹ کی گئی جبکہ دیگر طبّی امراض سے ان کی اموات میں بھی 15 فیصد کمی دیکھی گئی۔

زیادہ مقدار میں اور زیادہ طویل مدت سے چائے پینے والے افراد کو اس عادت کا اضافی فائدہ یہ ہوا کہ ان میں دل کی ہلاکت خیز بیماریوں یا فالج کا خطرہ 56 فیصد تک کم ہوگیا۔

بعض ماہرین نے اس تحقیق پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں صرف چائے کے استعمال اور امراضِ قلب یا فالج سے اموات کے آپس میں تعلق کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ لہذا اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ چائے نوشی اور دل کی بیماریوں/ فالج کا آپس میں تعلق ہے لیکن یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ یہ سارا فائدہ چائے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

یہ جاننے کے لیے اس سے کہیں زیادہ منظم مطالعے کی ضرورت ہے جس میں پوری احتیاط سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔