فکر اور ذہنی تناؤ سے بال سفید ہونے کا معما حل

ویب ڈیسک  جمعـء 24 جنوری 2020
فکری تناؤ سے بالوں کے قدرتی رنگ بننا بند ہوجاتے ہیں اور بال سفید ہوجاتے ہیں (فوٹو: فائل)

فکری تناؤ سے بالوں کے قدرتی رنگ بننا بند ہوجاتے ہیں اور بال سفید ہوجاتے ہیں (فوٹو: فائل)

ہارورڈ: اگر آپ کہتے ہیں کہ فکریں اور پریشانیوں نے سر سفید کردیا ہے تو یہ درست ہے اور اب اس کی سائنسی وجوہ بھی معلوم ہوچکی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ مسلسل پریشانی سے بال سفید ہوسکتے ہیں۔ سفید بالوں کے مساموں کی گہرائی میں موجود اسٹیم سیل میں قدرتی رنگ (پِگمنٹ) بنانے کی صلاحیت بتدریج ختم ہوجاتی ہے بالوں کو سیاہ بنانے کا عمل بالکل رک جاتا ہے۔

اس سے قبل کسی صدمے، شدید دکھ اور پریشانی سے بھی بال سفید ہوسکتے ہیں بلکہ یہ عمل ہفتوں اور مہینوں میں بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس داں یا چی سو نے کہا کہ ذہنی تناؤ اور پریشانیاں جلد اور بالوں کو شدید متاثر کرتی ہیں۔

ماہرین نے چوہوں پر کیے گئے تجربات سے ثابت کیا کہ اسٹریس کی کیفیت میں بالوں کے مساموں کے اندر موجود اسٹیم سیل سیاہ رنگت (پگمنٹ) بنانا بالکل بند کردیتے ہیں اور یوں بال تیزی سے سفید ہوتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض افراد میں بالوں کی سفیدی قدرے تیزی سے نمودار ہوتی ہے۔

پروفیسر یاچی سو نے کہا کہ ذہنی دباؤ جسم پر برے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن ہم نے بالوں کی سفیدی کے درمیان اس کا تعلق واضح کیا ہے۔ چوہوں میں دیکھا گیا کہ جیسے جیسے ان میں تناؤ بڑھا ویسے ویسے اسٹیم سیل نے بالوں کے لیے گہرا رنگ بنانا ختم کردی۔ اس کے بعد بال سفید ہوگئے اور یوں ہمیشہ کے لیے ان کا رنگ تبدیل ہوگیا۔

اسی ٹیم نے بتایا کہ شدید دباؤ کی صورت میں سمپیتھٹک نروس سسٹم (ایس این ایس) ایک نیورو ٹرانسمیٹر نوریپانیفرائن خارج کرتا ہے جس سے اسٹیم سیل کی تعداد ایک مقام سے حرکت پذیر ہوکر بالوں کے مساموں کے سوراخوں میں جمع ہوجاتی ہے اور اس سے بالوں کی سفیدی کا براہِ راست تعلق واضح ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔