مَنصبِ قضاء کا معیار (آخری قسط)

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 29 جنوری 2020
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

عدالت عظمیٰ کی سب سے بڑی ذمے داری آئین کی پاسداری ہے۔ عدالتِ عظمیٰ ٹرائیل کورٹ نہیں ہے، اس کی بنیادی ذمے داری اس چیز کو یقینی بنانا ہے کہ شہریوں خصوصاً معاشرے کے کمزور اور valnerable طبقوں ( جن میں حکومت کے سیاسی مخالفین سب سے اہم ہیں) کے بنیادی حقوق سلب نہ کیے جائیں ۔ اس سلسلے میں بھی پچھلے تین سال میں عدالتِ عظمیٰ اپنا کردار موثّر طور پر ادا نہیں کر سکی۔

اپوزیشن کے ایک متحّرک ممبر رانا ثناء اللہ پر ہیروئن کا صریحاً جھوٹا کیس بنا کر اسے گرفتار کر لیا گیا اور بغیر کسی تفتیش کے چھ مہینے جیل میں بند رکھا گیا مگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف کھوسہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور انھوں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ عدالتِ عظمیٰ اس کیس کی تفتیش اے این ایف سے لے کر تین ایماندار پولیس افسروں کے پینل سے کروا  کے انصاف کے تقاضے پورے کر سکتی تھی۔ اسی طرح اپوزیشن کے اہم رہنماؤں شاہد خاقان عباسی ، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال کے معاملے میں بھی عدالتِ عظمیٰ اپنی ذمے داری نبھانے میں ناکام رہی۔ کیا کسی مہذبّ معاشرے اور جمہوری ملک میں کسی سیاسی رہنماء کی آزادی اس طرح چھینی جا سکتی ہے؟

ماضی میں جسٹس کارنیلئس اور جسٹس حمود الرحمان کے دور میں جب عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان یہ دیکھتے تھے کہ حکومتِ وقت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے پر تلی ہوئی ہے تو وہ اس کا خود نوٹس لے کر متعلقہ سیاسی رہنماکی چیمبر میں ہی ضمانت لے لیا کرتے تھے اور حکومتی اداروں کو اسے کسی دوسرے کیس میں بھی گرفتار کرنے سے روک دیتے تھے، اس طرح وہ آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتے تھے۔ مگر پچھلے دونوں چیف جسٹس صاحبان کے دور میں حکومت کے سیا سی مخالفین انتقام کا نشانہ بنتے رہے اور جیلوں کی کال کوٹھڑیوں میں پڑے رہے اور بہت سے اب بھی پڑے ہوئے ہیں ، مگر دونوں چیف جسٹس اپنی بنیادی ذمے داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔

ماضی میں مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کی فون کا لیں سننے والے اور ان کی سفارشوں پر فیصلے کرنے والے ملک قیوم جیسے جج بھی عدلیہ کے دامن پر سیاہ دھبہ تھے۔ وہ قانونی معاملات میں قابل تھا مگر بے انصافیاں کر تا رہا۔

راقم نے اعلیٰ عدلیہ کے بہت سے ریٹائرڈ جج صاحبان سے پوچھا کہ ’’ پوری قوم عدلیہ کی آزادی (independence ) چاہتی ہے، آپ کس طرح کے جج صاحبان کو صحیح معنوں میں independent قرار دیں گے‘‘؟ پچانوے فیصد کا جواب تھا ’’وہ جج جسے کوئی بڑے سے بڑا شخص ملنے کی جرأت نہ کر سکے، جسکے نوٹس پر آرمی چیف بھی عدالت میں پیش ہو جائیںاور جو وزیراعظم کی کسی بھی دعوت پر جانے سے انکار کر دے اور جس کے خوف سے کوئی فرد یا ادارہ کسی شہری کے خلاف جھوٹا کیس بنانے کی ہمت نہ کرے‘‘ ۔

راقم نے پھر پوچھا ’’کیا ایسے کردار کے جج مل سکتے ہیں؟‘‘ جواب آیا ’’کیوں نہیں مل سکتے، وہ جج جو ربِ ذوالجلال کے ہاں جوابدہی کے احساس سے مغلوب ہوں وہ ایسے ہی کردار کا مظاہرہ کریں گے اور اسلامی تاریخ کے عظیم منصفوںکی سُنّت پر چلنے کی پوری کوشش کریں گے‘‘۔ حضرت عمر فاروق  ؓ منصبِ قضاء پر فائز کرنے سے پہلے متعلقہ افراد کا خاندانی پسِ منظر بھی دیکھا کرتے تھے کہ قاضی کسی ایسے خاندان سے تعّلق نہ رکھتا ہو کہ کمزوری اس کی گُھٹّی میں پڑی ہو اور وہ بااثر افراد کے رعب و دبدبے سے ہی دب جائے اور انصاف کے تقاضے پورے نہ کر سکے ۔ بات وہیں آ کر ختم ہوتی ہے کہ خالق و مالک کے سامنے جوابدہی کا احساس ہی افراد کے کردار میں پاکیزگی پیدا کر تا ہے اور اِسی احساس نے تاریخ کے بہترین منصف تیار کیے—

راقم نے اپنی کتا ب ’Straight Talk‘ میں اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کے موجودہ طریقہء کار پر تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ یہ شفاف اور منصفانہ طریقہ ء کار ھرگز نہیں ہے۔ خود جج صاحبان اور سینئر وکلاء بھی موجود ہ طریقہء کا رمیں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔

٭ کتاب میں تجویز کیا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے لیے ججوں کا انتخاب ایک شخص کے بجائے سرچ کمیٹی کا اختیار ہونا چائیے۔ سَرچ کمیٹی کے ارکان کی تعداد پانچ ہو اور وہ اعلیٰ کردار کے ریٹائرڈ ججز اور ایسے سینئر ترین وکلاء پر مشتمل ہو جنھوں نے بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں کبھی حصہ نہ لیا ہو۔ یعنی مکمل طور پر غیر سیاسی ہوں اور کسی وکیل کے ا حسان مند نہ ہوں۔

٭ راقم نے تجویز کیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کے لیے اسّی فیصد کوٹہ سروس کا ہو یعنی ہائیکورٹس کے اسّی فیصد جج صاحبان سینئر اور ایماندار ترین سیشن ججوں میں سے لیے جائیں اور بیس فیصد وکلاء میں سے منتخب کیے جائیں۔ کوئی ایسا شخص ہائیکورٹ کا جج بننے کا اہل نہیں ہو نا چائیے جس نے کبھی کسی بار ایسوسی ایشن کا الیکشن لڑا ہو۔ یعنی وہ وکلاء کی سیاست اور گروپ بازی کا حصّہ نہ رہا ہو۔

٭ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان صرف اس شخص کی سفارش کیا کریں جس کے دامن پر مالی اور اخلاقی کرپشن کا کوئی داغ نہ ہو، اور ایسے شخص کی سفارش نہ کریں جسکا کردار مشکوک ہو ، کوئیdrinker یا womaniser ہمارے آئین کے تحت جج بننے کا اہل نہیں ہو سکتا، اس لیے ایسے شخص کا نام ہر گز نہ بھیجا جائے۔

٭ مستقبل کے ججوں کے کردار کے بارے میں اسپیشل برانچ، انٹیلی جنس بیورو اور آئی ایس آئی سے رپورٹیں لی جائیں جو چیف جسٹس صاحبان اور پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کی جائیں۔ پارلیمانی کمیٹی کے ممبران ایسے ہوں جنکا اپنا کردار بھی پاکیزہ اور بے داغ ہو۔

٭ جج بننے والے حضرات کا سیاستدانوں کے سامنے انٹرویو کے لیے پیش ہو نا غلط اور نامناسب ہے، اسے فوری طور پر بند ہونا چائیے۔

٭ راقم کے خیال میں جوڈیشل سروس آف پاکستان کا فوری طور پر اجراء ہونا چائیے تا کہ CSS کے امتحان کی طرح پورے ملک کے لاء گریجوایٹ JSP کے امتحان کے ذریعے اس سروس کے لیے منتخب ہو سکیں۔

٭سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان پر ریٹائرمنٹ کے بعد اندرون یا بیرون ملک کسی بھی قسم کی سرکاری یا غیر سرکاری نوکری یا عہدہ قبول کرنے پر پابندی ہونی چائیے۔

عدلیہ میں ٹیکنالوجی کا استعمال ایک اچھی چیز ہے یہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے گا اور اس سے اداروں کی استعداد (efficiency) میں اضافہ ہو گا مگر یہ کوئی ایسی غیر معمولی کا میابی نہیں ہے جسے آصف کھوسہ صاحب اپنا تاریخی کارنامہ قرار دیتے رہے۔ میرے خیال میں یہ کوئی تاریخی کارنامہ نہیں ہے۔ بہت سے اداروں(بشمول پولیس) میں ٹیکنالوجی کا استعمال عدلیہ سے کہیں زیادہ ہو رہا ہے مگر وہ عوام کے اعتماد سے محروم ہیں۔ ٹیکنالوجی اُن اداروں پر عوام کا اعتماد بحال نہیں کرا سکی اور نہ ہی کرا سکتی ہے۔ عدلیہ کا تاریخی کارنامہ وہ ہو گا ،جب عدلیہ خود احتسابی کے کڑے عمل کے تحت قابلِ اعتراض اور مشکوک کردار کے لوگوں کو نکال باہر کریگی اور غیر جانبداری کا اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے میں کامیاب ہو گی اور کسی لالچ یا خوف سے بالا تر ہو کر بڑے سے بڑے طاقتور شخص یا ادارے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آئین کی پاسبانی کریگی اور انصاف کے مطابق فیصلے کریگی۔

عدلیہ کا تاریخی کارنامہ تب ہو گا جب اسلام آباد کے باخبر صحافی اور دور دراز کے گاؤں کے باسی بیک زبان کہیں گے کہ ’’اِس عدالت سے کوئی طاقتور فرد یا ادارہ یا کوئی کھرب پتی آدمی اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں لے سکتا‘‘ تاریخی کارنامہ وہ ہو گا جب انتظامیہ یا حکومت اپنے کسی سیاسی مخالف کی آزادی سلب کرے گی تو اُسی وقت عدلیہ حرکت میں آئیگی اور اُس شخص کی آزادی بحال کر کے حکومت کو سرزنش کریگی، جب ایسی صورتِ حال پیدا ہو گی تو پھر عدلیہ پر قوم کا اعتماد بحال ہو گا اور بلاشبہ عدلیہ کے لیے وہ تاریخی لمحہ ہو گا۔ مگر یہ تب ہو گا جب ججوں کی تعیناتی میں سب سے زیادہ  اہمیّت پاکیزہ کردار کو دی جائے گی اور جب اخلاقی کردار کی معمولی سی خامی بھی کسی شخص کو جج بننے سے روک دیگی۔ پاکیزہ اور مضبوط کردار کے ججوں پر مشتمل عدلیہ بے خوف اور آزاد ہو گی ایسی عدلیہ کے ہوتے ہوئے دوسرے ادارے بھی اپنی سمت درست کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور اپنی آئینی اور قانونی حدود و قیود کی پابندی کریں گے۔

کسی بھی معاشرے کے لیے ایسی عدلیہ قدرت کا خاص انعام اور عطیہ ہوتی ہے۔ ایسی عدلیہ کمزوروں کے لیے طاقت، حکومتِ وقت سے سیاسی اختلاف کرنے والوں کے لیے امید اور معاشرے کے پِسے ہوئے طبقوں کے لیے سائبان کی حیثیت رکھتی ہے اور ایسی عدلیہ صرف اعلیٰ کردار کے ججوں سے ہی تشکیل پا سکتی ہے۔

ایسے ججوں سے جو جسٹس عبدالرشید کی طرح وزیر اعظم (لیاقت علی خان) کی طرف سے ملنے والی چائے کی دعوت ٹھکرا دیں اور جو جسٹس کارنیلیس کی طرح ملک کے طاقتور صدر (ایوب خان) کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہ کریں کہ اس سے عوام میں یہ تاثر جا سکتا ہے کہ جو جج صدر کے ساتھ بیٹھ کر تصویریں بنواتے ہیں وہ ان کے خلاف فیصلے کیسے کر سکیں گے؟ بدقسمتی سے اب تنزّلی کا یہ حال ہے کہ جسٹس آصف کھوسہ صاحب نے اپنی حلف برداری کے روز اپنی فرمائش پر اپنی فیملی کے ساتھ ایک سیا سی پارٹی کے لیڈر یعنی وزیر اعظم کے ساتھ تصویر بنوائی۔ تصویر دیکھ کر ایک نیک نام ریٹائرڈ جج نے کہہ دیا تھا کہ ‘‘ چیف جسٹس اور اس کی فیملی کی ایک سیاسی رہنماء کے ساتھ بنوائی گئی یہ تصویر پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ’ مجھ سے میزانِ عدل کا توازن برقرار رکھنے کی توقّع مت رکھنا‘۔ کھوسہ صاحب اپنی افتادِ طبع کے لحاظ سے ایک منصف نہیں بلکہ ایک careerist تھے اس لیے وہ آئین کی پاسداری نہ کر سکے اور قوم کو مایوس کر کے چلے گئے۔

منصف کے معیار کا سب سے بڑا پیمانہ اعلیٰ کردار ہے۔ جب پاکیزہ اور مضبوط کردار کے افراد جج مقرر ہوںگے تو پھر  یہاں صحیح معنوں میں قانون کی حکمرانی قائم ہوگی۔ اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ قانون کی حکمرانی ہی اچھی حکومت ) (good governanceکی بنیاد ہے۔ اور قانون کی حکمرانی ہی ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کا صدردروازہ (gateway) ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔