اپنے لیے۔اور قرض کے لیے

سعد اللہ جان برق  منگل 4 فروری 2020
barq@email.com

[email protected]

خبرہے کہ سابق مملکت ناپرساں اور حالیہ ریاست اللہ داد میں سیاسی بحران نے شدت اختیارکرلی ہے۔ اب یہ بحران کیاہے ،کیوں ہے کیساہے؟

اس کو سمجھنے کے لیے ہم نے کچھ سمجھدارچونچوں کو اپنے چینل’’ہیاں سے ہواں تک‘‘کے خصوصی ٹاک ٹوک ٹک اور ٹکاٹک شو’’چونچ بہ چونچ‘‘میں مدعو کیاہے، اپنے دو خصوصی چونچوں کے بارے میں کچھ بتانا اب چنداں ضروری نہیں رہا ہے کیونکہ کون ہے جو ہمارے ان رسوائے جہاں،بدنام زماں اور ننگ انسان چونچوں کو نہیں جانتا۔ البتہ جو خصوصی ترین چونچ اس پروگرام میں شامل ہے، وہ مملکت ناپرساں،سوری۔ریاست اللہ داد کی بہت بڑی چونچ ہے۔

اپنی پیدائش سے لے کر آج تک تقریباً ہر محکمے اور ادارے میں وزیر رہی ہے۔ تعلیم، صحت،تعمیر، تخریب،داخلہ خارجہ ریلوے بیلوے اطلاعات نشریات ماخولیات لاحولیات، سب کو اس کی وزارت کا شرف حاصل رہاہے اور تقریباً ہرچھوٹی بڑی پارٹی میں ان کمننگ اور آؤٹ گوئنگ کا چالیس سالہ تجربہ رکھتی ہے۔ جناب چمچ الزماں، چمچ الملک ،چمچ العالم، چمچی خان چمچی کفگیرآبادی ان کا نام ہے اور کام بھی یہی ہے بلکہ دام بھی یہی ہے۔

اینکر۔ہاں جناب چمچ چمچمی صاحب۔پروگرام چونچ بہ چونچ میں آپ کی محترم چونچ کوخوش آمدید۔

چمچ۔چمچ آمدید

اینکر۔یہ جو مملکت ناپرساں میں…

چمچ۔معاف کیجیے ،ریاست اللہ داد۔

اینکر۔سوری۔ریاست اللہ داد میں جوسیاسی بحران پیداہواہے،اس کا ویراباوٹ،تاریخ جغرافیہ اوروجہ تسمیہ کیاہے؟

چمچ۔دراصل یہ اس کی تعمیر میں مضمرخرابی کا ایک نتیجہ ہے جب مملکت نا…سوری ریاست اللہ داد بن گیا۔

چشم۔بن گیا؟مگرہم نے تو سناہے کہ اگا بلکہ اگایاگیاتھا۔ایک ایسے گملے میں جو جدی پشتی اصلی نسلی خاندانی باغبانی گل چینوں اور گل فروشوں نے بنایاہے

چمچ۔کہیں تم میرے خاندان کی طرف تو اشارہ نہیں کررہے ہو۔علامہ۔یقنیاً یہ یک چشم نابکار ناہنجار پیدائشی بازارہے ہی اس  قبیل کا۔

چشم۔نہیں نہیں توبہ توبہ میں کسی بھی خاندان کی طرف اشارہ کرنے کا عادی نہیں ہوں،چاہیے وہ خاندان کتنا ہی گھٹیااور پست کیوں نہ ہو۔

اینکر۔تم دونوں اپنی چونچ بازی چھوڑو تاکہ ہم جناب چمچ الدین چمچ سے ذرا مملکت ناپرساں کے بحران پربیان بازی عیاں کریں۔

چمچ۔مملکت ناپرساں نہیں ریاست اللہ داد

اینکر۔سوری۔مملکت۔نہیں۔ریاست اللہ داد

چمچ۔دراصل جناب یہ ریاست اللہ داد مجموعہ اضداد اور نمونہ افتاد بن گیا۔تو اس میں دوقسم کے لوگ تھے۔

اینکر۔جی دوقسم کے لوگ؟

چمچ۔ایک وہ جو انسانوں سے بہت کم اور حیوانوں سے تھوڑے زیادہ تھے۔

چشم۔یہ کیسے انسان ہوتے ہیں؟

علامہ۔تمہارے جیسے۔

چمچ۔جو انسان لگتے ہیں لیکن ہوتے نہیں۔

اینکر۔اچھا یہ تو ایک قسم کے ’’ٹوان ون‘‘ یعنی انسان ضرب حیوان ہوئے۔

چمچ۔دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جو انسانوں سے بہت زیادہ اور خدا سے تھوڑے کم ہوتے ہیں۔

علامہ۔توبہ کیجیے یہ کیسے ممکن ہے؟

چمچ۔ممکن نہیں ہے اور ہوتے بھی نہیں لیکن وہ اپنے آپ کو ایسا سمجھتے ہیں۔

اینکر۔چلیے آگے بڑھیے۔

چمچ۔دونوں میں ایک معاہدہ ہوگیا۔

اینکر۔ہوگیا یا’’طے پا‘‘گیا۔

چمچ۔آئی ایم سوری میں بھول گیاتھا۔ہوا نہیں تھا ’’طے پا‘‘گیاتھا۔

چشم۔ہونے اور طے پانے میں فرق کیاہے؟

علامہ۔بہت فرق ہے جتنا مجھ میں اور تجھ میں ہے۔

اینکر۔تم لوگ اپنی چونچیں بندکرو اور ہمیں بات کرنے دو، ہاں توجناب چمچ الزماں صاحب۔

چمچ۔دونوں میں یہ معاہدہ ہوگیا کہ کمائیں گے تم ،کھائیں ہم۔قرض لیں گے ہم، ادا کروگے تم،کروگے تم بولیں گے ہم۔

اینکر۔یہ توبڑااچھا معاہدہ طے پاگیاتھا۔

چمچ۔معاہدہ اچھاتھا لیکن وہ جو انسانوں سے بہت کم اور جانوروں سے تھوڑے کم تھے، معاہدہ توڑ کر بھاگنے لگے۔اینکر۔کہاں؟چمچ۔دوسرے جہاں کو اور کہاں۔چشم۔خودکشی کرنے لگے یا بھوکوں مرنے لگے۔چمچ۔دونوں ہی راستوں سے بھاگنے لگے تھے۔علامہ۔اس گزرگاہ سے پہنچیں تو کہیں منزل تک

جو بھی گزرے گا گزاریں گے گزرنے والے

چمچ۔بہت خوب۔آپ کا شعر ہے۔

چشم۔اس کا اپنا کچھ نہیں ہوتا۔یہاں تک کہ اس کے جسم کے یہ کپڑے جوتے بلکہ گوشت پوست بھی دوسروں کا ہوتاہے۔چمچ۔اس کا مطلب ہے کہ یہ بھی ہمارے ان لوگوں کی طرح ہے جو انسانوں سے بہت زیادہ اور خدا سے تھوڑے کم ہوتے ہیں۔

اینکر۔یہ بتایئے کہ پھرکیاہوا؟

چمچ۔ہوا یہ کہ جگہ جگہ لنگرخانے کھل گئے اور کالانعام بھاگنے کی بجائے لیجالیے گئے، اپنے لیے اور قرض کے لیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔