مختلف انداز سے بیکٹیریا ہلاک کرنے والی اینٹی بایوٹکس دریافت

ویب ڈیسک  جمعرات 13 فروری 2020
بیکٹیریا کو مارنے کے بجائے یہ دوائیں انہیں تقسیم ہوکر تعداد بڑھانے کے قابل ہی نہیں چھوڑتیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بیکٹیریا کو مارنے کے بجائے یہ دوائیں انہیں تقسیم ہوکر تعداد بڑھانے کے قابل ہی نہیں چھوڑتیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اونٹاریو: بیکٹیریا میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت آج ایک عالمی طبّی مسئلہ بن چکی ہے جسے حل کرنے کے لیے ماہرین ہر طرح کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ خبر بھی اس حوالے سے حاصل ہونے والی ایک نئی کامیابی کے بارے میں ہے۔

خبر کچھ یوں ہے امریکا اور کینیڈا کے ماہرین نے مشترکہ طور پر تحقیق کرتے ہوئے کچھ ایسی اینٹی بایوٹکس ڈھونڈ نکالی ہیں جو مروجہ اور روایتی اینٹی بایوٹکس کے مقابلے میں بالکل مختلف طریقہ اختیار کرتے ہوئے بیکٹیریا کو ہلاک کرتی ہیں، جسے ہم نے پہلی بار دریافت کیا ہے۔

مٹی میں پائے جانے والے بیکٹیریا یہ اینٹی بایوٹکس تیار کرتے ہیں جنہیں اجتماعی طور پر ’’گلائیکوپیپٹائیڈز‘‘ کہا جاتا ہے۔

اگر روایتی ضد حیوی ادویہ (اینٹی بایوٹکس) کی بات کریں تو وہ بیکٹیریا کی خلوی دیوار (سیل وال) کو توڑ کر ان کا خاتمہ کرتی ہیں لیکن نئی اینٹی بایوٹکس کا اندازِ کار بالکل مختلف ہے: یہ بیکٹیریا کی خلوی دیواروں کو اتنا سخت کردیتی ہیں کہ وقت آنے پر یہ بیکٹیریا مزید تقسیم ہونے کے قابل ہی نہیں رہتے اور یوں ان سے انفیکشن بھی نہیں پھیلتا۔

واضح رہے کہ کسی بھی قسم کے بیکٹیریا کا حملہ اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب انسانی جسم میں ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جائے اور انہیں قابو میں رکھنا ہمارے قدرتی دفاعی نظام (امیون سسٹم) کے بس سے باہر ہوجائے۔ ایسے میں بیکٹیریا کو ہلاک کرنے کےلیے اینٹی بایوٹکس دی جاتی ہیں جو دراصل زہر ہی ہوتی ہیں اور بیکٹیریا کی خلوی دیواریں پھاڑ کر انہیں ہلاک کردیتی ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضر بیکٹیریا نے خود کو ان ادویہ (اینٹی بایوٹکس) کے خلاف مضبوط بنالیا ہے جس کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ نودریافتہ اینٹی بایوٹکس کسی جرثومے کو ہلاک نہیں کرتیں بلکہ اس کی خلوی دیوار کو اتنا سخت کردیتی ہیں کہ جب تقسیم کا مرحلہ آتا ہے، تب بھی خلوی دیوار جوں کی توں رہتی ہے اور پوری کوشش کے باوجود بھی جرثومہ تقسیم ہو کر اپنی تعداد بڑھانے سے قاصر رہتا ہے۔

اب تک پیٹری ڈش میں رکھے ہوئے بیکٹیریا کو کنٹرول کرنے میں نئی اینٹی بایوٹکس نے بہت اچھی اور امید افزاء کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ البتہ انہیں علاج میں استعمال کے قابل دوا کے مرحلے تک پہنچنے میں مزید کئی سال کی تحقیق درکار ہے۔

اس تحقیق کی تفصیلات ’’نیچر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔