دہرا معیار تعلیم یا ذہنی عذاب…

رقیہ اقبال  ہفتہ 23 نومبر 2013

یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں پاکستان تعلیم کے لیے سب سے کم جی ڈی پی مختص کرنے والا ملک ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تعلیم پر خرچ کیا جانے والا جی ڈی پی 2006-07 میں 2.5 فیصد، 2007-08 میں 2.47 فیصد، 2008-09 میں 2.1 فیصد، جب کہ 2009-10 میں 2 فیصد تک ہوکر اس کا گراف تسلسل سے نیچے گرتا چلاگیا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے کم سے کم پاکستان کو 6 فیصد جی ڈی پی مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ یونیسیف کی 2012 کی رپورٹ کے مطابق ملک میں شرح خواندگی کا تناسب 55 فیصد ہے جس میں مردوں کا تناسب 67 فیصد اور خواتین کا تناسب 42 فیصد ہے۔ شہروں میں شرح خواندگی کا تناسب 72 فیصد ہے جس میں شہری مردوں کا تناسب 80 فیصد اور خواتین کا تناسب 64 فیصد ہے۔ دیہاتوں میں مجموعی خواندگی کا تناسب 45 فیصد ہے جس میں دیہی مردوں کا تناسب 60 فیصد اور خواتین کا تناسب 30 فیصد ہے۔

یونیسکو کی اکتوبر 2012 کی رپورٹ کے مطابق تعلیمی ترقی کے گوشوارے میں پاکستان کا 113 واں نمبر ہے۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے رپورٹ نے شمار کیا کہ پاکستان میں پانچ سے نو سال تک کی عمر کے تقریباً 51 لاکھ بچے اسکول نہیںجاتے جو کہ پوری دنیا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ اگر عمر کا دائرہ بڑھا کر اس میں بالغوں کو شامل کرلیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ کل ڈھائی کروڑ بچوں کا اسکولوں میں اندراج نہیں۔ رپورٹ نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ پاکستان میں تعلیم پر خرچ کیا جانے والا جی ڈی پی کا 2.8 فیصد جنوبی ایشیا میں سب سے کم اور صرف بنگلہ دیش کے 2.4 فیصد سے زیادہ تھا۔ بچوں کے تحفظ اور بحالی کی تنظیم (اسپارک) کے مطابق پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے، جب کہ ستر لاکھ بچوں کو کسی قسم کی تعلیم مہیا نہیںکی گئی۔ رپورٹ نے اس بات پر بھی غور کیا کہ سندھ میں صورت حال سب سے زیادہ خطرناک تھی، جہاں 35 فیصد اسکول عمارت کے بغیر تھے اور بہت سے اسکولوں کی چاردیواری نہیں تھی۔ رپورٹ نے یہ تخمینہ بھی لگایا کہ پاکستان بھر میں تقریباً 35 ہزار فرضی اسکول ہیں جو مسلسل سرکاری عطیات وٖصول کررہے ہیں۔

ماضی میں نظر دوڑائی جائے تو 1970 کی دہائی تک سرکاری اسکولوں کا ایک ہی معیار ہوا کرتا تھا اور بڑے بڑے عہدوں پر تعیناتی پانے والے سرکاری افسران ان ہی سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل تھے۔ حکومت وقت نے تمام نجی اسکولوں کو اپنی تحویل میں لیا تو مجموعی طور پر اس کے کافی برے اثرات مرتب ہوئے۔ 1990 کی دہائی میں یہ تعلیمی ادارے دوبارہ نجی تحویل میں دیے جانے لگے۔ اس کے ساتھ نجی اسکولوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا، گلی محلوں میں دھڑادھڑ پرائیوٹ اسکول کھلنے لگے، ایک ہی اسکول کی کئی کئی شاخیں قائم ہوئیں اور اس طرح اس کاروبار کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون سی جادوئی چھڑی تھی جس کے گھمانے سے سرکاری اسکول اتنی تیزی سے زوال کا شکار ہوکر عوام میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھے۔ اس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں، اس زمانے میں سرکاری اسکول کھچاکھچ بھرے ہوتے تھے، جس کی وجہ سے بچوں کو صحیح توجہ نہیں مل پا رہی تھی، برس ہا برس سے وہی ایک فرسودہ نصاب چل رہا تھا، جدید دور کے مطابق سہولیات نہیں تھی، معیار تعلیم بھی آہستہ آہستہ گرتا چلا گیا تھا اور مزید یہ کہ انگلش کی ڈیمانڈ بھی بڑھ چکی تھی، لیکن سرکاری اسکولوں کا پورا نصاب اردو زبان پر مبنی تھا۔ اب والدین کو سرکاری اسکولوں کا متبادل پرائیوٹ اسکول نظرآنے لگے، جہاں انگریزی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی، دور حاضر سے ہم آہنگ نصاب تھا اور جس میں وقت اور حالات کے ساتھ مزید تبدیلیاں متوقع تھیں۔ غرض یہ کہ یہیں سے ہمارا تعلیمی معیار دو حصوں میں تقسیم ہوتا گیا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسی دہرے تعلیمی معیار نے قوم کو بھی دو دھڑوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں 60 ملین لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، یہ غریب افراد بھی اپنے بچے کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنا پیٹ کاٹ کر پرائیویٹ اسکولوں کی ہائی فائی فیسیں بھرنے پر مجبور ہیں۔ یا پھر وہ افراد جن کے لیے پرائیویٹ اسکول کے اخراجات دسترس سے باہر ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے سے بہتر سمجھتے ہیں کہ انھیں کوئی ہنر سکھا دیا جائے، تاکہ دو پیسے کی کمائی کا آسرا ہو۔ یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں، جس کی وجہ سے خواندگی کا تناسب 57 فیصد تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے، اور یہ بھی اس معیار ہی کے تحت ہے کہ جو اپنا نام لکھ سکے، وہ خواندہ ہے۔

انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتیں یوں تو ووٹ کی خاطر بڑے بلند بانگ دعوے کرتی نظر آتی ہیں کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر دیں گے، ہم یہ کردیں گے، ہم وہ کر دیں گے۔ لیکن افسوس ہے کہ تعلیم کا بجٹ اب تک 2 جی ڈی پی سے آگے نہیں بڑھ سکا اور اس 2 فیصد میں سے بھی آدھے سے زیادہ بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات تو دے دیے گئے لیکن یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ نصاب کا معاملہ اب تک وفاق کے ہی ہاتھ میں ہے۔ تو پھر یہ نام نہاد اختیارات کس کام کے۔ اگر صوبوں کو نصاب کی تیاری کا اختیار دے دیا جائے تو اس سے ہمارے ملک کی ہی بہتری ہے کہ چاروں صوبوں میں اپنے اپنے نصاب میں مزید بہتری لانے کے لیے مقابلہ بازی کا رجحان فروغ پائے گا اور برس ہا برس ہمیں ایک ہی طرح کا نصاب دیکھنے کو نہیں ملے گا بلکہ دور حاضر کے مطابق اس میں تیزی سے تبدیلیاں کی جاسکیں گی۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25-A کے مطابق ریاست 5-16 سال کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ کاش کہ یہاں ایک لفظ ’’معیاری تعلیم‘‘ کا بھی اضافہ کردیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا کیوں کہ والدین بچوں کی تعلیم کے معاملے میں پیسوں پر تو سمجھوتہ کرلیتے ہیں، لیکن معیار پر نہیں۔

راقم السطور کا ایک ایسے سرکاری اسکول بھی جانا ہوا جہاں کے ٹیچرز کے بقول کتابیں تو حکومت فراہم کرتی ہے، لیکن وہ سب ٹیچرز خود مل کر اپنے قائم شدہ فنڈز سے بچوں کو کاپیاں اور یونیفارم تک مہیا کرتے ہیں کہ کسی طرح بچے ان کے اسکول میں ہی پڑھتے رہیں، لیکن سب بے سود۔ ماں باپ پھر بھی پرائیویٹ اسکولوں کی طرف بھاگتے ہیں اور اس کی توجیہہ انھوں نے کچھ یوں پیش کی کہ جگہ جگہ پرائیویٹ اسکول کھل گئے ہیں اور والدین کے پاس اب بہت پیسہ آگیا ہے۔ اصل وجہ کوئی ماننے پر تیار ہی نہیں کہ تعلیمی معیار بہت معنی رکھتا ہے اور اس طرح سرکاری تنخواہیں لینے والے اساتذہ کی اکثریت اپنے معیار تعلیم میں موجود نقائص سے آگاہ ہونے کے باوجود بڑی ڈھٹائی سے اس کی پردہ پوشی کرتی نظر آئی۔ اس میں قصور ان اساتذہ کا بھی نہیں کیوں کہ حکومت کی طرف سے انھیں جو کتابیں جس زبان میں پڑھانے کو دی جاتی ہیں وہ اسے بلا چوں و چرا پڑھا دیتے ہیں، کیونکہ انھیں معیار سے زیادہ تنخواہوں سے غرض ہے۔ یہ نہایت بدقسمتی کی بات ہے کہ سرکاری اسکولوں کی اکثریت میں اب بھی کمپیوٹر اور بائیوسائنس کا سرے سے وجود ہی نہیں۔ کیا وجہ ہے حکومت اساتذہ کی تنخواہوں پر تو خوب خزانہ خرچ کررہی ہے لیکن معیار تعلیم کی بہتری کے لیے کوئی اقدام نہیں۔

اگر حکومت خود اپنی خامیوں کا ادراک کرلے اور اپنے اندر موجود نقائص و خامیوں پر پردہ پوشی یا خاموشی اختیار کرنے کے بجائے بہتری کے لیے اقدامات کرلے تو پرائیویٹ اسکول سرکاری اسکولوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر کبھی اپنا بزنس نہیں چمکا سکیں گے اور ان کا بزنس ٹھپ ہوکر رہ جائے گا۔ اگر سرکاری اسکولوں کا میڈیم تبدیل کردیا جائے، سائنس اور کمپیوٹر کے مضامین شامل کردیے جائیں، فرسودہ نصاب کی جگہ دور حاضر سے متقاضی نیا نصاب متعارف کروا دیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج ہوجائے گا، طبقاتی فرق کے خاتمے میں آسانی ہوگی اور غریب کا بچہ بھی باآسانی ان تمام سہولیات سے استفادہ کر سکے گا، جو امرا اور شرفا کے بچوں کو آج پیسے کے بل بوتے پر حاصل ہیں۔ ملک میں نہ صرف خواندگی کے تناسب میں اضافہ ہوگا، بلکہ انگریزی کی بدولت تحقیق کے رجحان میں بھی اضافہ ہوگا اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم خود مختار ہوکر ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ریاست کے سفر پر گامزن ہوسکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔