غلیل جیسی ’’مشینی ٹانگیں‘‘ آپ کو ایتھلیٹ سے بھی تیزرفتار بنا سکتی ہیں!

ویب ڈیسک  ہفتہ 28 مارچ 2020
یہ پروٹوٹائپ ایکسو اسکیلیٹن دوڑنے اور چلنے کے دوران انسانی جسم کا بوجھ جزوی طور پر سنبھال لیتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ پروٹوٹائپ ایکسو اسکیلیٹن دوڑنے اور چلنے کے دوران انسانی جسم کا بوجھ جزوی طور پر سنبھال لیتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ٹینیسی: دو امریکی انجینئروں نے ٹانگوں میں پہننے والی ایک ایسی مشین یعنی ’’ایکسو اسکیلیٹن‘‘ ایجاد کرلی ہے جس سے ایک عام انسان کی چلنے اور دوڑنے کی رفتار 50 فیصد تک بڑھ جائے گی۔

دوڑنے کی اوسط انسانی رفتار تقریباً 4 میٹر فی سیکنڈ جبکہ زیادہ سے زیادہ رفتار 12.3 میٹر فی سیکنڈ تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ لیکن یہ ایکسو اسکیلیٹن پہننے پر ایک عام انسان کی رفتار بھی 20.9 میٹر فی سیکنڈ تک ہوسکتی ہے جو دنیا کے سب سے تیز رفتار ایتھلیٹ یوسین بولٹ سے بھی زیادہ ہے۔

یہ ایکسو اسکیلیٹن وانڈربلٹ یونیورسٹی میں ایڈوانسڈ روبوٹکس اینڈ کنٹرول لیبارٹری کی امینڈا سترینسو اور ڈیوڈ بران نے مشترکہ طور پر ایجاد کی ہے جس کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔

اس ایجاد کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر چلتے دوران ہماری ٹانگیں نہ صرف حرکت کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں بلکہ اسی کے ساتھ ہمارے پورے جسم کا بوجھ بھی سہارتی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے چلنے اور دوڑنے کی رفتار زیادہ نہیں ہو پاتی۔

مذکورہ پروٹوٹائپ ایکسو اسکیلیٹن، جس کا ڈیزائن کسی غلیل جیسا ہے، دوڑتے اور چلتے دوران انسانی جسم کا بوجھ جزوی طور پر سنبھال لیتی ہے جس کی بدولت آگے بڑھنے کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ ابتدائی آزمائشوں میں یہ ایکسو اسکیلیٹن پہننے والے رضاکاروں کی رفتار معمول سے 50 فیصد تک زیادہ نوٹ کی گئی۔

اس کے اطلاق کے بارے میں ڈیوڈ بران کہتے ہیں کہ یہ ایجاد قانون نافذ کرنے والوں، امدادی کارکنان اور عام لوگوں تک کےلیے مفید ثابت ہوسکتی ہے، ’’اور جس طرح سائیکل کی ایجاد سے سائیکلنگ کا ایک نیا کھیل وجود میں آیا، ہوسکتا ہے کہ اس ایکسو اسکیلیٹن کے باعث بھی کوئی نیا کھیل سامنے آجائے،‘‘ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔