مُجسّمِ مکر و فریب، بندۂ حرص و ہَوا

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 5 اپريل 2020
بہت بغاوت کرلی ہم نے! پلٹ کیوں نہیں آتے اپنے رب کی طرف

بہت بغاوت کرلی ہم نے! پلٹ کیوں نہیں آتے اپنے رب کی طرف

ترقی، ترقی اور ترقی کے راگ آہ و زاری میں بدل گئے! سب کچھ ہوگیا ہَوا اور رہ گئی بس آہ! یہ جو موت کا خوف ہے، جی موت سے بدتر اذیّت ہے یہ!

ہاں حالات تو خراب ہیں، بہت زیادہ خراب۔۔۔۔! لیکن کیوں ہیں؟ آپ صاحبِ بصیرت، زیرک، دانا اور دانش مند ہیں جانتے ہوں گے، میں نہیں جانتا۔ سوچتا ضرور ہوں، سوچتا چلا جاتا ہوں اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں اصل نہیں جعلی ہوں۔ ایک کشتی کے بہ جائے بہت سی کشتیوں میں سوار ہوں۔ ایک کامل صحیح راستہ، جو مجھے بہ حفاظت اپنی اصل منزل تک پہنچانے کا ضامن ہے، چھوڑ کر بہت سارے اجنبی راستوں پر گام زن ہوں۔ ادھورا، نامکمل اور تھڑدلا ہوں میں۔ میں اپنا اعتماد کھو بیٹھا ہوں اور سہاروں کی تلاش میں ہوں۔ میں اتنا تو جانتا ہی ہوں کہ بے ساکھیوں سے میں چل تو لوں گا، دوڑ نہیں سکوں گا، پھر بھی بے ساکھیوں کا سہارا۔۔۔۔!

میں گِلے، شکوے اور شکایت کرنے والا بن گیا ہوں۔۔۔۔! مجھے یہ نہیں ملا، میں وہ نہیں پاسکا، میں اپنے حقوق سے محروم کردیا گیا، ہائے اس سماج نے تو مجھے کچھ نہیں دیا، دینا تو دُور کی بات یہ تو میری کام یابی میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوگیا، ہائے! میرے راستے کی دیوار بن گیا ہے۔

میں خود ترسی کا شکار ہوں، میں چاہتا ہوں ہر ایک صرف مجھ پر ترس کھائے، میری داد رسی کرے۔ میں بہت بے چارہ ہوں۔ میرا کوئی نہیں۔ میں تنہا ہوں، مجھے ڈس رہی ہے میری اُداسی۔۔۔۔ ہائے مرگیا، ہائے میں کیا کروں! میں مجسّمِ ہائے ہوں۔ میں کیا ہوں، کون ہوں، کیوں یہاں آیا ہوں، کس کام سے مجھے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، مجھے کچھ معلوم نہیں اور یہ میں جاننا بھی نہیں چاہتا۔ کہنے دیجیے! ’’کورونا‘‘ جیسے موذی مرض سے زیادہ بڑی افتاد کا شکار ہوں میں۔ بس کوئی مجھے سہارا دے، کوئی میرا ہاتھ تھامے، کوئی میری بپتا سنے۔۔۔۔ کولہو کے بیل کی طرح بس میری اور میں کا چکر۔ میں اس گرداب میں پھنس گیا ہوں اور نکلنے کی کوشش کے بہ جائے اس میں غوطے کھا رہا ہوں اور اب تو میں اس کا نشئی بن گیا ہوں۔ میں حقائق سے آنکھیں چُرا کر خواب میں گُم ہوں۔ ہر شے بس میری دست رس میں ہو، کسی اور کی نہیں صرف میری دست رس میں، جب کہ اتنا تو میں جانتا ہوں کہ میں کُن کہہ کر فیٰکُون نہیں دیکھ سکتا، پھر بھی۔۔۔۔!

میں اس پر تو کبھی غور ہی نہیں کرتا کہ میں نے کیا دیا لوگوں کو! اس سماج کو میں نے کیا دیا! میں دینا جانتا بھی ہوں یا بس مجھے صرف لینا ہی آتا ہے؟ کبھی نہیں سوچا میں نے۔ مجھے خود سے فرصت ملے تو سوچوں بھی ناں۔ میں نے کسی سے محبّت کا دعویٰ کیا، جینے مرنے کی قسمیں کھائیں، اور پھر اسے دھوکا دیا، اس کے اعتماد سے کھیل گیا۔ ایسا ہی کیا ناں میں نے! میں اسے کوئی جرم ہی نہیں سمجھتا۔ کسی نے مجھ سے ہم دردی کی، میرا ساتھ دیا، مجھے اپنے کام میں شریک کیا اور میں نے کیا کِیا؟ جب میرا ہاتھ کچھ کشادہ ہوا تو اسے چھوڑ کر دوسرے کے پاس جا بیٹھا۔ ایسا ہی کیا ہے ناں میں نے؟ میں نے اپنی چرب زبانی سے لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالے، انہیں سہانے خواب دکھائے، مفلوک الحال لوگوں کو پلاٹس کی جعلی فائلیں فروخت کیں، کسی غریب نے قرض لے کر مجھے پیسے دیے کہ میں اُسے باہر بھیج دوں تاکہ اس کا ہاتھ کشادہ ہو، میں نے اسے کسی اور کے ہاتھ بیچ ڈالا، اس کا پورا مستقبل تباہ کر ڈالا۔ میں نے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ہر وہ کام کیا جس پر مجھے شرم آنی چاہیے، لیکن میں ڈھٹائی سے اپنی کمینگی پر اترائے پھرتا ہوں۔ میں نے نام نہاد اشرافیہ جو اپنی اصل میں رذیلیہ ہے، سے تعلقات بنائے اس لیے کہ وہ میرے کرتوتوں میں میری معاونت کریں۔

میں نے غنڈوں، قاتلوں، حرام خوروں، قبضہ اور اتھائی گیروں کے جتّھے تیار کیے اور در بہ در خاک بہ سر لوگوں کو زندہ درگور کردیا، اور پھر بھی میں معزّز ہوں۔ میں نے بینکوں سے فراڈ کے ذریعے پیسے نکلوائے اور اچھے محلات بنا کر اس میں عیش و عشرت کرنے لگا، اپنے جرائم کو میں دیکھتا ہی نہیں ہوں۔ میں نے قبرستان میں بہت سے مُردے دفن کیے اور خود کبھی نہیں سوچا کہ آخر مجھے بھی تو اسی جگہ آنا ہے۔ میں نے جعلی دوائیں بنائیں، انہیں فروخت کیا اور اپنی تجوریاں بھر لیں۔ میں نے ذخیرہ اندوزی کی اور معصوم انسانوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے من چاہے دام وصولے۔

میں نے مذہب کو پیسا کمانے کا ذریعہ بنالیا۔ میں ایک بہت اچھا بہروپیا ہوں جو ایسا روپ دھارتا ہے کہ اصل کا گمان ہو۔ ہاں میں نے لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام بھی اس لیے کیا کہ میری واہ واہ ہو اور سماج میں میری وقعت بڑھے، اور پھر اس کو بھی پیسے کمانے کا ذریعہ بنالیا، میں نے چند روپوں کا راشن تقسیم کیا اور پھر تصویریں بنوا کر اخبارات کو دیں اور پھر انہیں دیکھ کر اپنے نفس کو خوش کیا۔ میں نے رشوت لی، حق تلفی کی، ہر ناجائز کام کیا اور جائز کام والوں کو راستہ ہی نہیں دیا جب تک میری جیب نہ بھر دی انہوں نے۔ انتہائی شاطر ہوں میں، بندۂ نفس، بندۂ مکر و فریب، بندۂ حرص و ہَوا۔

میں سب کا مجرم ہوں، کہتا کچھ اور کرتا کچھ ہوں، میں نے صرف اپنی ذات کو دیکھا اور اسے ہی پروان چڑھایا۔ لُوٹ کھسوٹ کے نت نئے طریقوں کا موجد ہوں میں۔ میں نے اپنے ہم وطن معصوم انسانوں کے لیے آخر کِیا ہی کیا ہے، سوائے زبانی جمع خرچ کے! چرب زبانی کے۔۔۔۔۔!

میں سمجھا تھا کہ جو میں کر رہا ہوں اسے سدا دوام ہے۔ میں نے اپنی ذہانت سے انتہائی سوچ بچار کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے کاروبار اور محلات بنائے۔ میں سمجھتا رہا کہ میں دنیا میں ہی جنّت بنالوں گا اور کچھ نے تو بنا بھی لی، جہاں ہر طرح کا عیش و آرام اور من چاہا جیون گزاروں گا، میں موت کو بھی اپنے پاس نہیں بھٹکنے دوں گا کہ دنیا کے بہترین اسپتال اور معالج جو میری دست رس میں ہیں اور نہ جانے کیا کچھ۔

پھر کیا ہوا۔۔۔۔۔ ! یہ اچانک کیا ہوا ۔۔۔۔۔ ! رواں دواں سب کچھ یک دم رُک گیا، جہاں تھا وہیں منجمد ہوگیا، یہ کیا ہوا۔ ترقی، ترقی اور ترقی کے راگ آہ و زاری میں بدل گئے۔ سب کچھ ہوگیا ہَوا اور رہ گئی بس آہ۔ موت تو آنی ہی ہے اور ضرور آکر رہے گی کہ کوئی اس سے فرار نہیں ہوسکتا، چاہے کچھ کرلے، ہو ہی نہیں سکتا، لیکن یہ جو موت کا خوف ہے یہ، جی موت سے بدتر اذیّت ہے یہ! انسان اپنے سوا سب کو موت کا ہرکارہ سمجھ بیٹھا ہے، اتنا خوف کہ خوف بھی پناہ مانگے، اتنا خوف کہ اپنے پیاروں کو بھی اپنے قریب آتا دیکھ کر پکارتا ہے، دُور رہو مجھ سے فاصلہ رکھو۔

ہائے! سامان ہزار برس کا تھا جسے پَل نے اسے بھس بنا ڈالا۔ قیامت کسے کہتے ہیں، اب تو سب جان گئے اور وہ بھی جو اسے ماننے سے انکاری تھے، سب جان گئے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ قیامت نہیں ہے۔ لیکن صاحبو! کیا قیامت صغریٰ سے کم ہے یہ۔ تو صاحبو! دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو ۔۔۔۔۔ !

اور اب جب میں ہلکان ہوگیا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں اس عذاب سے جو میں نے خود خریدا ہے، کیسے نجات پاؤں۔ تب میں نے پہلے اقرار کیا اپنی خطاؤں کا اپنے رب کے سامنے اور پھر عزم کیا: نہیں اب میں بندۂ نفس نہیں بندۂ رب بننے کی کوشش کروں گا۔ یہ بہت مشکل ہے، بہت زیادہ۔۔۔۔ لیکن میں نے رب کو سہارا بنا لیا اور میرے زخم بھرنے لگے، پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ میں نے تہیہ کرلیا کہ میں اپنے لیے نہیں خلق خدا کے لیے زندہ رہنے کی کوشش کروں گا۔

آپ رب کا سہارا پکڑ لیں تو مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ مجھے بہت الجھن ہونے لگی تھی کہ میں عذاب اور آزمائش میں فرق کیسے کروں، تب میں نے اپنا مسئلہ ان کے سامنے رکھ دیا، بہت دیر تک دیکھتے رہے، مسکراتے رہے اور پھر میرا مسئلہ حل کردیا: ’’دیکھ بہت آسان ہے عذاب اور آزمائش میں فرق رکھنا۔ جب کوئی پریشانی، مشکل آئے اور وہ تجھے تیرے رب کے قریب کردے تو سمجھ لے یہ آزمائش ہے۔ جب کوئی پریشانی، مشکل، غم اور دُکھ تجھے تیرے رب سے بھی دُور کردے تو سمجھ لے! یہ عذاب ہے، توبہ کا وقت ہے۔ ضرور کر توبہ اور جلدی کر اس میں۔‘‘

ہمارے چاروں طرف کیا ہو رہا ہے، ہمیں خود دیکھنا چاہیے، سوچنا چاہیے۔ ہم اجتماعی آزمائش میں مبتلا ہیں یا اجتماعی عذاب میں؟

وادیٔ گماں میں بسنے والو! اس گماں میں، اس دھوکے میں، فریب میں مت رہنا کہ تم ہاتھ منہ دھوتے ہو، غسل کرتے ہو، اچھے کپڑے پہنتے ہو، نمازیں ادا کرتے ہو تو رب کو اس سے کچھ ملتا ہوگا، اسے بندگی کرانے کی کوئی خواہش ہوگی، رب کی عزت میں کوئی اضافہ ہوتا ہوگا، اور اگر تم بغاوت کرتے ہو، نہیں ادا کرتے فرائض، تو اسے کوئی نقصان ہوتا ہوگا، وہ رنجیدہ ہوتا ہوگا۔ وادیٔ گماں میں بسنے والو! ایسا نہیں ہے، قطعی نہیں ہے۔ ساری کائنات اُس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائے تو اس کی بڑائی بیان نہیں ہو سکتی، اور ساری کائنات باغی ہو جائے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس حکم کی تعمیل کرتے چلے جاؤ شُکر کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ، اپنی تمام تر بے بسی کے ساتھ تو بس تمہارا ہی فائدہ ہے۔ فلاح پاؤ گے۔ مانتے چلے جاؤ گے تو امن پاؤ گے، سکون و راحت پاؤ گے۔

بغاوت کرو گے تو زندگی جہنّم بنی رہے گی، سکون و قرار کھو بیٹھو گے، اعتبار جاتا رہے گا، نفسانفسی مچی رہے گی، کوئی کسی کی نہیں سنے گا، بس پھنس کے رہ جاؤ گے اور تارِ نفس میں، اور دھوکے میں، فریب میں۔ تو ایک ہی راہ ہے: تسلیم کرو، اس کی رضا پر راضی رہو، اس کے گُن گاؤ۔ اسی کی مدحت ہے، وہی ہے سزاوارِ حمد و ثنا، نام اُس کا بلند ہے، رہے گا۔ سب چلے جانے کے لیے ہیں، چلے جائیں گے۔ کوئی نہیں رہا یہاں پر، کوئی نہیں رہے گا، رہ ہی نہیں سکتا۔ بس رہے گا تو نام رہے گا اﷲ کا، بس اسی کا۔

بہت ہی اتھلا ہے بندہ بشر، بہت ہی تھڑدلا، بہت مکاّر و عیّار، بہت ہی شکوہ کرنے والا، شکایت کرنے والا۔۔۔۔۔۔ تھوڑی سی راحت پر پھول کر کپّا ہو جاتا ہے اور رب کو بُھول جاتا ہے۔ اور اگر تھوڑی سی تکلیف پہنچ جائے تو بس ڈھنڈورچی بن جاتا ہے۔ سب کو بتانے لگتا ہے دیکھو میرے سر میں درد ہے، دیکھو مجھے بخار ہو گیا، دیکھو میں تکلیف میں ہوں۔ یہ ہوگیا، وہ ہوگیا، غضب ہوگیا۔ بس میں ہی نظر آتا ہوں رب کو۔ جنابِ رابعہ بصریؒ یاد آگئیں، کہیں سے گزر رہی تھیں کہ ایک شخص کو دیکھا جس نے سر پر رومال باندھا ہوا تھا۔

تب اس سے پوچھا: ’’یہ تم نے سر پر رومال کیوں باندھا ہوا ہے؟ وہ بہت عاجزی سے بولا: دیکھیے میرے سر میں درد ہے، اس لیے۔ تب رابعہ بصریٰ بولیں: کیا تم نے کبھی شُکر کا رومال باندھا ہے؟ وہ شخص حیران ہوا اور وضاحت چاہی تو رابعہ بصریؒ نے فرمایا: اتنی راحتیں رب نے دیں تب تو تم نے رومال نہیں باندھا کہ جس پر لکھا ہوتا: مجھے رب نے راحت دی ہے اس لیے یہ رومال باندھا ہوا ہے، یہ شُکر کا رومال ہے۔ اور سر میں تھوڑا سا درد کیا ہو گیا کہ شکایت کا رومال باندھے گھومتے ہو۔‘‘

کبھی غور کیا ہے ہم نے اِس پر؟ ہم سب شُکر کے رومال سے محروم ہیں اور شکایت کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ بہت نا شُکرے ہیں ہم، بہت تھڑدلے، بہت بے عقلے۔۔۔۔ بصیرت نہ بصارت۔

بہت بغاوت کرلی ہم نے، نتائج بھی دیکھ رہے ہیں۔ پلٹ کیوں نہیں آتے اپنے رب کی طرف۔ ہاں! یہ مجھے میرے ایک بابا نے بتایا تھا بہت پیار سے کہ اﷲ جی اُس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو پلٹ آئے، سہما سہما سا، شرم آ رہی ہو اسے، اس بات کا ملال ہو کہ اتنے عرصے رب کا باغی رہا۔ جب وہ شرمندہ شرمندہ سا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تب رب کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ اسے اپنی رحمت میں لپیٹ لیتا ہے۔

پلٹ آئیے۔ یہ سب کچھ رب نے دیا ہے۔ شُکر ادا کیجیے۔ اور شُکر یہ نہیں ہے کہ صرف نمازیں پڑھیے، تلاوت کیجیے، روزے رکھیے۔ یہ رب کا حکم ہے، ادا کرنا ہے۔ یہ آپ کا اور رب کا معاملہ ہے۔ شُکر یہ بھی ہے کہ آپ بے کسوں کی خبر گیری کریں۔ وہ جو آپ کے محلے میں سفید پوش ہیں اُن سے جا کر ملیں، ان کے مسائل معلوم کریں اور پھر اس طرح کہ ان کی عزتِ نفس ذرا سی بھی متاثر نہ ہو اُن کی مدد کریں، ان کا شکریہ ادا کریں۔ وہ جو بستر پر پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہے اسے راحت و آرام کی چند ساعتیں دیں۔ ان کی خبر گیری کریں جن کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں۔ یہ جو مال و دولت آپ کو رب نے دیا ہے اسے اس کی مخلوق کے لیے خرچ کرنا سیکھیے۔ فقیر آپ کو یقین دلاتا ہے کہ آپ اس خرچ کرنے کی راحت کو کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ وہ لمحے جو آپ نے کسی کی راحت کے لیے خرچ کیے وہ سرمایہ ہیں زندگی کا۔۔۔۔۔ وہ آنسو جو آپ کی آنکھوں سے کسی اور کے لیے برسا، وہ انمول ہے اور وہی رب کو مطلوب ہے۔

دیکھیے، غور سے سنیے! فقیر کہہ رہا ہے: ’’خدمت سے خدا ملتا ہے‘‘ انتخاب تو آپ کا ہے ناں۔

کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔۔۔۔۔ بس نام رہے گا اﷲ کا۔

اداس میں ہی نہیں، شہر میں کہ میری طرح

زمیں کی رات بھی شامل ہے سوگواروں میں

اور دیکھیے یہ کیسا ہے:

یہ مہر و مہ بے چراغ ایسے کہ راکھ بن کر بکھر رہے ہیں

ہم اپنی جاں کا دیا بُجھائے کسی گلی سے گزر رہے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔