پتنگ کی دھاتی ڈور سے شہری زخمی ہونے لگے،چند روز میں 12 افراد شکار

اسٹاف رپورٹر  پير 6 اپريل 2020
پتنگ کاسامان بیچنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے،شہری ۔  فوٹو : ایکسپریس

پتنگ کاسامان بیچنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے،شہری ۔ فوٹو : ایکسپریس

کراچی:  شہر بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران پتنگ بازی عروج پر پہنچ گئی ،پتنگ بازی میں دھاتی ڈور کے استعمال سے چند روز کے دوران 12 افراد گردن اور چہروں پر ڈور پھرنے سے زخمی ہوگئے، پولیس کی مبینہ سرپرستی میں شہرکے مختلف علاقوںمیں پتنگ کی دکانیں دن بھر کھلی رہتی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق کورونا وائرس کے باعث جہاں شہر بھر میں لاک ڈاؤن ہے اور پولیس، رینجرزاور سیکیورٹی ادارے اس پر عملدرآمد کے لیے سرگرم ہیں تو ایسے میں مبینہ طور پر پولیس کی سرپرستی میں شہر بھر میں پتنگ بازی کھلے عام جاری ہے ، شام ہوتے ہی شہر کے مختلف علاقوں میں آسمان پر جابجا پتنگیں ہی پتنگیں نظر آتی ہیں اور شہری پتنگیں اڑاتے دکھائی دیتے ہیں ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران مخصوص اوقات صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک صرف مخصوص کاروبار کریانہ اسٹور ، میڈیکل اسٹور دودھ کی دکانیں کھولنے کی اجازت ہے لیکن اس کے باوجود شام کو آسمان پتنگوں سے بھرجاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہر بھر میں پتنگ کی دکانیں کھلنا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نیو پریڈی اسٹریٹ ، جٹ لائن، اے بی سینیا لائن ، اورنگی ٹاؤن ، نیو کراچی ، لیاقت آباد ، کورنگی ڈھائی نمبر ، ایک نمبر ، گلشن اقبال ، گلستان جوہر ، ناظم آباد ، صفورا ، ملیر سٹی اور دیگر علاقوں میں مبینہ طور پر بھاری نذرانوں کے عوض پولیس کی سرپرستی میں پتنگ کی دکانیں کھولی جارہی ہیں اور پتنگ بازی کا مکمل سامان فروخت کیا جارہا ہے شام ہوتے ہی شہری گھروں کی چھتوں پر اور کئی علاقوں میں کھلے میدانوں میں بھی پتنگ بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پتنگ بازی میں استعمال کی جانے والی دھاتی ڈور انسانی جان کے لیے انتہائی نقصان دہے ، گزشتہ چند روز کے دوران دھاتی ڈور گردنوں پر پھرنے کے باعث 12 افراد زخمی ہوکر اسپتالوں میں پہنچ چکے ہیں ، اس سے قبل کئی شہری، نوجوان اور بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں، شہریوں نے آئی جی سندھ مشتاق مہر سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ پولیس کی ایسی کالی بھیڑوں کے خلاف سخت کارروائی کریں ان کے اس عمل سے نہ صرف لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی ہورہی ہے بلکہ شہریوں کی جان کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔