- وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی چینی ہم منصب سے ملاقات، سی پیک کے دوسرے مرحلے کیلیے عزم کا اظہار
- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
- سونے کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری، بدستور بلند ترین سطح پر
- گداگروں کے گروپوں کے درمیان حد بندی کا تنازع؛ بھیکاری عدالت پہنچ گئے
- سائنس دانوں کی سائبورگ کاکروچ کی آزمائش
- ٹائپ 2 ذیا بیطس مختلف قسم کے سرطان کے ساتھ جینیاتی تعلق رکھتی ہے، تحقیق
- وزیراعظم کا اماراتی صدر سے رابطہ، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور
- پارلیمنٹ کی مسجد سے جوتے چوری کا معاملہ؛ اسپیکر قومی اسمبلی نے نوٹس لے لیا
- گزشتہ ہفتے 22 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں، ادارہ شماریات
- محکمہ موسمیات کی کراچی میں اگلے تین روز موسم گرم و مرطوب رہنے کی پیش گوئی
- بھارت؛ انسٹاگرام ریل بنانے کی خطرناک کوشش نے 21 سالہ نوجوان کی جان لے لی
- قطر کے ایئرپورٹ نے ایک بار پھر دنیا کے بہترین ایئرپورٹ کا ایوارڈ جیت لیا
- اسرائیلی بمباری میں 6 ہزار ماؤں سمیت 10 ہزار خواتین ہلاک ہوچکی ہیں، اقوام متحدہ
محکمہ اسکول ایجوکیشن کو 800 شکایات موصول
کراچی: صوبائی محکمہ اسکول ایجوکیشن کو کراچی سمیت سندھ بھر کے نجی اسکولوں کی جانب سے اپریل اور مئی کی فیسوں میں رعایت اور ملازمین کو تنخواہیں جاری نہ کرنے کے حوالے سے 800 کے قریب شکایات موصول ہوچکی ہیں۔
ان میں سے 75فیصد کے قریب شکایات نجی اسکولوں کی جانب سے طلبہ کو اپریل اور مئی کی فیسوں میں 20فیصد رعایت رعایت نہ کرنے سے متعلق ہیں جبکہ باقی شکایت نجی اسکولوں کے اساتذہ و غیر تدریسی عملے کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے متعلق ہیں۔ ادھر ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز سندھ نے مذکورہ شکایات موصول ہونے کے بعد اسکول فیس میں رعایت نہ دینے والے 35 نجی اسکولوں جبکہ ملازمین کو تنخواہ نہ دینے والے 29 نجی اسکولوں کو وضاحتی خطوط (letter explanation ) جاری کردیے ہیں اور ان سے اس معاملے پر 7 روز میں جواب طلبی کی ہے۔
رجسٹرار پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز رفعیہ ملاح کے مطابق ڈائریکٹوریٹ کو موصولہ شکایات کی جب دیگر ذرائع سے تصدیق کی گئی تو کئی شکایات غلط بھی ثابت ہوئیں اور کچھ شکایات بالکل جعلی تھیں۔ ڈائریکٹوریٹ کے عملے نے اسکولوں کی Facebook ،ان کی ویب سائیٹس اور موبائل نمبرز پر جاکر ہر شکایت کی تصدیق کی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ بعض اسکولوں نے ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے فیس میں رعایت کے احکام جاری ہونے کے بعد طلبہ کو نئے فیس واؤچر جاری کردیے ہیں اور خط لکھ کر ہمیں اطلاع بھی دے دی ہے تاہم جنھوں نے ایسا نہیں کیا انھیں وضاحتی خطوط جاری کررہے ہیں ۔
محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کے ذرائع نے ’’ایکسپریس ‘‘ کو بتایا کہ پہلے روز 8 اپریل کو 295 شکایات موصول ہوئی تھیں ان میں 246 شکایات فیسوں سے متعلق جبکہ 49 شکایات تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے متعلق تھیں۔ اسی طرح 9 اپریل کو کل 330 شکایات آئی تھیں جن میں 281 شکایات فیسوں اور 49 تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے متعلق تھیں۔ اگلے روز 10 اپریل کو 190 شکایات آئی تھیں جس میں 147 فیسوں اور 43 تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے متعلق تھیں۔
یہ شکایات ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز سندھ کے ریجنز کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، میرپورخاص، سکھر اور شہید بینظیر آباد کو موصول ہوئیں۔ علاوہ ازیں ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز سندھ کی جانب سے فیسوں میں 20 فیصد رعایت نہ کرنے والے اسکولوں کو بھجوائے گئے وضاحتی خطوط میں کہا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں والدین اورطلبہ کی جانب سے شکایات موصول ہوئی ہیں کہ اسکولوں نے اپریل کے فیس چالان ؍ واؤچرز 20فیصد رعایت کے بغیر ہی جاری کردیے ہیں، جو حکومت سندھ کی ہدایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
لہٰذا آپ کے اسکول کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جو اضافی رقم چارج کی گئی ہے اسے خط ہذا کے اجرا کے 7 یوم میں والدین کو واپس یا آنے والے ماہ کی فیس میں ایڈجسٹ کیا جائے اسی طرح تنخواہیں روکنے والے اسکولوں کو بھجوائے گئے خطوط میں کہا گیا ہے کہ آپ کے اسکول میں زیر ملازمت عملے کی جانب سے مارچ کی تنخواہیں جاری نہ ہونے کی شکایات موصول ہورہی ہیں جو حکومتی ہدایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے لہٰذا آپ کے اسکول کو ہدایت کی جاتی ہے کہ کارروائی سے بچنے کے لیے فوری طور پر تنخواہیں جاری کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔