فیصلہ کن فیصلے کا وقت آن پہنچا ہے 

وسعت اللہ خان  ہفتہ 25 اپريل 2020

پانچ فٹ دو انچ قد میں بند ارون دھتی رائے جیسے تخلیقی آتش فشاں سے کون ایسا ناواقف ہے جسے پڑھنے لکھنے کا بھی دعویٰ ہو۔ادیبہ ، کالم نویس ، مقرر ، باغی۔کورونا کے بارے میں ان کے خیالات کیا ہیں؟ حال ہی میں برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں اس بابت ارون دھتی رائے کا ایک مضمون شایع ہوا۔اس کے کچھ حصے میں آپ تک بھی پہنچانا چاہتا ہوں۔

’’ وبا پھیل چکی ہے۔یہ جملہ ان دنوں سوچتے اور بولتے ہوئے جھرجھری سی آ جاتی ہے۔ذرا تصور کریں ایسی دنیا کا جس میں ہر دروازے کے ہینڈل ، گتے کے ڈبے ، سبزی کی ٹوکری ، اور کھڑکی کی چوکھٹ  پر ایک نادیدہ بلا بیٹھی ہو اور وہ آپ کے پھیپھڑوں پر وار کرنے سے پہلے آپ کی سانس کی نالی میں گھس کر خود کو ایک  جتھے میں تبدیل کرنے کی تاک میں ہو۔

آج کسی کا بوسہ لینے ، بس پر سوار ہونے اور اپنے بچے کو اسکول بھیجنے کے خیال سے کون خوفزدہ نہیں؟ کون جری ہے جو روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے پہلوؤں سے لطف اندوز بھی ہونا چاہتا ہو مگر دل میں کہیں نہ کہیں نامعلوم خوف بھی کلبلا رہا ہو۔پھر بھی ہم میں سے کون ہے جو خود ساختہ ماہرِ جرثومیات، شماریات دان ، جعلی وبائی ماہر اور غیب کی خبر لانے کا دعویدار نہ ہو۔

کون سا ایسا طبی ماہر اور سائنس داں ہے جو دل ہی دل میں کسی معجزے کی دعا نہ کر رہا ہو اور کون سا ایسا مولوی ، پنڈت اور راہب ہے جو بنا اظہار کیے کسی ویکسین کے انتظار میں سائنس کی چوکھٹ کو امید بھری نظروں سے نہ تک رہا ہو ؟

بھلے ہی وائرس بے طرح پھیل رہا ہے پھر بھی کون سا کان ہے جس کی سماعت سے اس وقت کسی پرندے کی چہچاہٹ نہ ٹکرا رہی ہو۔سنسان چوکوں پر رقصاں کسی مور پر نگاہ نہ پڑ رہی ہو اور نیلگوں آسمان کی خاموشی دل کو نہ چھو رہی ہو۔

ہر آنکڑا یہی کہہ رہا ہے کہ بات سیکڑوں سے نکل کر ہزاروں سے گذرتی ہوئی لاکھوں متاثرین پر جانے کے بعد اب کروڑ کی شماریاتی حد عبور کرنے کے لیے تیار ہے۔یہ وائرس انسان سے گذر کر تجارتی ایوانوں اور بین الاقوامی سرمائے کی راہداریوں میں دندنا رہا ہے اور ان راہداریوں کے مکین گھروں میں بند ہیں۔مگر منافع اور وائرس کے بہاؤ میں ایک بنیادی فرق بھی ہے۔منافع دریاِ حرص میں صرف ایک سمت بہتا ہے اور وائرس صورتِ سیلاب ہر سمت بہہ رہا ہے۔اس سیلاب نے امیگریشن کنٹرول، بائیو میٹرکس، ڈیجیٹل نگرانی کے نظام اور ڈیٹا کے تجزیاتی خزانوں کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔

پہلی بار کسی دشمن اور وہ بھی بظاہر نادیدہ دشمن نے دنیا کی امیر و طاقت ور ترین اقوام کو برابری سے ٹکر دی ہے اور دولت ساز انجن میں گھس کر اسے روک دیا ہے۔بظاہر یہ انجن عارضی طور پر ہی رکا ہو مگر ہمیں کم ازکم یہ سوچنے کی مہلت ضرور مل گئی ہے کہ آیا دوبارہ مرمت کر کے آیندہ بھی اسی انجن سے کام چلانا ٹھیک رہے گایا پھر ہمیں بدلی دنیا کے پکارتے ہوئے تقاضوں کے پیشِ نظر ایک زیادہ بہتر فعال موثر انجن بنانا چاہیے۔

ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ جو لوگ اس عالمی وبا سے نمٹنے کے فیصلے کر رہے ہیں وہ اسے وبا کے بجائے نہ صرف ایک روایتی جنگ سمجھ رہے ہیں بلکہ روایتی جنگی اصطلاحات بھی برت رہے ہیں۔جیسے ڈاکٹر صفِ اول کے سپاہی اور ہراول دستہ ہیں یا دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کو درپیش یہ سب سے سنگین بحران ہے وغیرہ وغیرہ۔

اگر تو واقعی یہ کوئی جنگ ہے تو جنگ لڑنے کے لیے سب سے زیادہ تیار، آمادہ اور طاقت ور امریکا کے پاس کیا آبدوزوں، جنگی طیاروں، ایٹم بموں کی کمی ہے ؟ مگر سب سے زیادہ متاثر اسی سپر پاور کے شہری ہیں۔

ایسی سپر پاور کس کام کی جس کے پاس ہتھیاروں کے انبار تو ہوں مگر وہ اس دوڑ میں ماسک، دستانوں ، حفاظتی سوٹوں اور جوتوں کی تیاری بھول گئی ہو اور آج ان کی تلاش میں در در گھوم کر اس سامان کو دوسروں سے چھین رہی ہو یا دبوچ رہی ہو۔

یہ کون سی سپرپاور ہے جس کا صدر روزانہ وائٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ دے رہا ہے مگر میڈیا کو سب سے زیادہ انتظار نیویارک کے گورنر کی پریس کانفرنس کا رہتا ہے اور ٹی وی اسکرینز کے سامنے روزانہ کروڑوں مبہوت امریکی اس گورنر کے ایک ایک لفظ پر دھیان دے رہے ہوتے ہیں۔

عظیم امریکا کے اسپتالوں کی کمر ٹوٹ رہی ہے ، قلیل تنخواہوں پر گذارہ کرنے والے طبی کارکن اور نرسیں اپنی زندگی داؤ پر لگا کے بیماروں کو سنبھالنے کے لیے کچرہ جمع کرنے کے لیے بنائے گئے کالے پلاسٹک بیگز اور پرانی برساتیوں سے خود کو لپیٹنے سے بھی نہیں ہچکچا رہے۔ریاستیں وینٹی لیٹرز کی زیادہ سے زیادہ بولی لگا کے ایک دوسرے سے جھپٹ رہی ہیں اور کئی مقامات پر ڈاکٹروں کو اب یہ طے کرنا ہے کہ کسے وینٹی لیٹر دیا جائے اور کسے مرنے کے لیے یونہی چھوڑدیا جائے۔ہائے یہ عظیم امریکا۔

جاری المیہ بھلے ہی حقیقی ہونے کے باوجود ہمیں فلمی فلمی سا لگ رہا ہو مگر یہ المیہ نیا نہیں ہے۔بس ننگا اب ہوا ہے۔یہ المیہ دراصل اس ٹرین کا ملبہ ہے جو برسوں پہلے پٹری سے اتر چکی۔امریکی طبی نظام کے دروازے عشروں سے کمزور طبقات کے لیے بند ہیں۔ طاقتور امریکا کو پہلی بار پتہ چلا ہے کہ ایک غریب اور محروم شخص کو لگنے والی بیماری بھی کیسے امارت کے محل کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔

مگر اس دھچکے کے باوجود ابھی برنی سینڈرز جیسے شخص کو امریکا کا صدر بننے میں عرصہ لگے گا۔تب تک امریکا کی اپنی شکل کیا ہو گی کون جانے۔برنی سینڈرز یہی تو چاہ رہا تھا کہ صحت کی سہولتیں ہر امریکی شہری کو مفت میں دستیاب ہوں۔اس سے پہلے کہ ٹرمپ کا برنی سینڈرز سے براہِ راست سامنا ہوتا برنی کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی نے اس کا کریا کرم کر ڈالا۔ جہاں سیاسی جماعتیں لابی کی غلام ہوں وہاں برنی سینڈرز جیسے کس کھیت کی مولی ہیں۔

حالانکہ بفضلِ وائرس ہماری گورنننس اور معیشت کی کھوکھلی بنیادیں ننگی ہو چکی ہیں مگر ہم پھر بھی دعا گو ہیں کہ حالات پہلے کی طرح معمول پر آجائیں۔ہم اپنے مستقبل کو ماضی کی میلی چادر کے ساتھ ایک بار پھر ٹانکنے کے لیے اتاولے ہو رہے ہیں۔

کاش ہم اس مہلت اور آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قیامت خیز ڈھانچے کو بدلنے کے بارے میں سوچ سکیں جس کے بوجھ نے آج ہمیں اپنے ہی گھٹنوں پر جھکا دیا ہے۔اس وقت ’’ پہلے جیسی نارمل زندگی‘‘ کی خواہش سے بد ترین کوئی اور خواہش نہیں ہو سکتی۔

دنیا میں آج تک جتنی بھی عالمگیر وبائیں آئیں انھوں نے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں سفر کے لیے دروازے کا کام کیا اور انسان کو ماضی سے ناتا توڑ کے کچھ نیا سوچنے اور کرنے کا موقع دیا۔آج بھی ہمارے سامنے دو طرح کے امکانات ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں۔یا تو ہم اپنی نفرتوں ، تعصبات ، مردہ نظریات،لاشوں جیسے پڑے دریاؤں اور زہریلے دھوئیں سے آلودہ آسمان کا بدبو دار بوجھ اپنے ڈھانچوں پر لاد کر نئے کھلنے والے امکانی دروازے  کے پار اتر جائیں یا پھر سارا فرسودہ سامان یہیں اتار کر تازہ تصورات اور تخلیقی سوچ کے اوزاروں کا ہلکا پھلکا تھیلا پکڑ کے مستقبل میں اتر جائیں۔

یہی تو وقت ہے کسی فیصلہ کن فیصلے کا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔