ڈاکٹر جمیل جالبی ایک قدرآورعلمی شخصیت

ڈاکٹر یونس حسنی  اتوار 3 مئ 2020
دفتری مناصب کے اعتبار سے بھی وہ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے جہاں کا ماحول علم و ادب کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

دفتری مناصب کے اعتبار سے بھی وہ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے جہاں کا ماحول علم و ادب کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

18 اپریل 2020 کو ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی پہلی برسی منائی گئی۔ سلسلہ روز و شب کی اس برق رفتاری کو کیا کہیں کہ ان کو بچھڑے ایک سال ہوا اور معلوم ہوتا ہے کل کی بات ہے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب جیسے لوگ مرتے ہیں مگر ہم سے جدا نہیں ہوتے، وہ صرف ہماری یادوں میں مقید نہیں رہتے بلکہ اپنے اعلیٰ کارناموں کی بدولت نسلوں یاد کیے جاتے رہتے ہیں۔ اور یہی چیز اس عالم فانی میں عظمت کا نشان ہے۔

وہ ایک سرکاری افسر تھے، دفتری جھنجھٹوں میں مبتلا رہتے ہوئے انھوں نے اپنی علمی لیاقتوں میں اضافہ کیا اور وہ اعلیٰ تعلیمی اسناد حاصل کیں جن کے آگے کچھ نہیں ہوتا۔

کہنے کو وہ سول سروس کے آدمی تھے مگر علم و ادب سے ان کا شغف علمی اداروں سے وابستہ لوگوں سے بھی زیادہ تھا۔ وہ مسلسل لکھتے رہے اور ادبی حلقوں میں اپنا مقام بناتے رہے۔ علمی دنیا سے انھوں نے اپنے آپ کو اس طرح وابستہ رکھا کہ وہ علمی و ادبی دنیا کے فرد ہی لگتے تھے۔

دفتری مناصب کے اعتبار سے بھی وہ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے جہاں کا ماحول علم و ادب کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے مگر وہ انکم ٹیکس کمشنر کے اعلیٰ عہدے پر رہتے ہوئے اپنی اہل شناسی علم و ادب کو بنائے رہے۔

اس کا صلہ بھی انھیں ملا۔ انکم ٹیکس کمشنری سے فارغ ہونے کے بعد وہ ملک کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اگرچہ وہ جامعہ کراچی کے ماحول اور اس کے کلچر سے آشنا تھے مگر اس سے شناسائی پیدا کرنے میں انھوں نے دیر نہیں لگائی۔ اپنی مدت ملازمت میں دانش مندی، حوصلے اور رواداری سے اپنے فرائض ادا کیے اس کا معترف ان کے عہد کا ہر وہ فرد ہے جس نے اس عہد میں جامعہ کی ہلڑ بازی بھی دیکھی اور پھر جالبی صاحب کے پرسکون عہد کو بھی دیکھا جس میں زور علمی سرگرمیوں پر رہا۔ سیاسی سرگرمیوں پر نہیں۔

جب وہ شیخ الجامعہ کے عہدے پر فائز تھے میں شعبہ اردو کا صدر نشین تھا۔ میں نے جامعہ کے اچھے برے دن دیکھے ہیں اور میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی ملازمت کے دوران جن وائس چانسلروں کو دیکھا مجموعی طور پر ان میں سب سے کامیاب وائس چانسلر جالبی صاحب تھے۔

میں ان کی فراست کے اعتراف میں ان کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ ایک بار کسی مطالبے کے سلسلے میں طلبا کے ایک گروہ نے شیخ الجامعہ کے دفتر کا گھیراؤ کرلیا۔ ان کے بعض مطالبات ایسے تھے جن کو تسلیم کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ جالبی صاحب اپنے دفتر میں بیٹھے اطمینان سے پان کھاتے رہے۔

پھر سیکریٹری کو حکم دیا کہ تمام صدور شعبہ جات کو میرے دفتر میں طلب کرلو۔ چنانچہ ساٹھ کے قریب صدور شعبہ وائس چانسلر کے دفتر پہنچ گئے۔ اب صورت یہ بن گئی کہ گھیراؤ محض شیخ الجامعہ کا نہیں ساٹھ کے قریب صدور شعبہ کا بھی ہوگیا۔ طلبا کے لیے یہ صورت حال انتہائی مضر تھی، چنانچہ انھوں نے گھیراؤ ختم کرنے میں ہی عافیت جانی۔ جالبی صاحب نے یہ مسئلہ پولیس یا رینجرز کی مداخلت کے بغیر حل کیا۔ جالبی صاحب اعلیٰ انتظامی عہدوں پر رہ چکے تھے مگر طلبا کے بچکانہ اور ضدی مطالبات سے واسطہ پڑا تو وہ اس میں بھی کام یاب رہے۔

جامعہ کراچی سے فارغ ہونے کے بعد وہ ایک اور علمی ادارے کے سربراہ رہے اور وہ تھا مقتدرہ قومی زبان۔ اس ادارے کی سربراہی کے دوران انھوں نے متعدد حوالے کی کتب، شعرا اور ادیبوں کی کتابیات اور دفتری اردو کی ترویج کے لیے بڑا کام کیا۔

جامعہ کراچی کی وائس چانسلری کے دوران وہ شعبہ اردو کے معاملات میں خصوصی دل چسپی لیتے رہے۔ ان کے زمانے میں بعض اچھے اساتذہ کا شعبے میں اضافہ ہوا۔ شمیم احمد صاحب، سحر انصاری صاحب اور ڈاکٹر ظفر اقبال صاحب اسی زمانے میں شعبہ اردو میں آئے۔ وہ جب شعبہ کا دورہ کرتے تو ہر اعتبار سے اس کی علمی سرگرمیوں کے بارے میں ضرور پوچھتے تھے اور چاہتے تھے کہ شعبے کا امیج اس کے اساتذہ کی لیاقت کی بنیاد پر استوار ہو۔

جالبی صاحب ایک ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ ہمارے قدما کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ یک رُخے نہیں ہوتے تھے۔ جالبی صاحب بھی اس روایت کے اسیر تھے۔ ان کی منتظمانہ صلاحیتوں سے قطع نظر ادبی اعتبار سے  بھی وہ بیک وقت، محقق، نقاد، دانش ور تھے۔ قدیم و جدید ادب پر ان کی یکساں نظر تھی انھوں نے ادبی دنیا کے وہ بھاری پتھر بھی اٹھائے جو کسی سے نہ اٹھتے تھے۔ مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کی ترتیب و تدوین جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھی۔ دیوان حسن ذوقی اور دیوان نصرتی کو مرتب کرکے انھوں نے دکن میں اردو کی ترویج کی کڑیاں اس طرح ملائیں کہ اردو ادب تقریباً ایک صدی قبل تک جاپہنچا اور اس کے ارتقائی خلا پُر ہوگئے۔

ان کا اصل کارنامہ جو ان کے تمام کارناموں میں نمایاں ترین ہے وہ ہے ’’تاریخ ادب اردو۔‘‘ یہ تاریخ ادبی تاریخ نگاری کے جدید اصولوں کے پیش نظر لکھی گئی ہے اور ہر عہد کے سیاسی، علمی اور ادبی و تاریخی پس منظر میں اس دور کے ادب کی معنویت کو تلاش کرکے اس کی نمایاں خصوصیات واضح کی گئی ہیں۔ اسی لیے اس تاریخ کو اردو ادب کی تاریخوں میں منفرد اور نمایاں مقام حاصل ہوا ہے۔

یہ ایک ایسا کام ہے جو ایک ادارے کے کرنے کا تھا جیسے تنہا جالبی صاحب نے انجام دیا۔ وہ یہ کام تقریباً اسی فیصد مکمل کرگئے تھے اور جب تک ہوش حواس نے ساتھ دیا کام کرتے رہے، جو کام باقی رہ گیا تھا اس کے نوٹس بھی انھوں نے مرتب کرلیے تھے۔ ایک اعتبار سے یہ کام تشنہ تکمیل ہے مگر اب ہمارے معاشرے میں دو چار لوگ ہی ایسے رہ گئے ہیں جو اس بھاری پتھر کو اٹھا سکیں اور ان کا اتنا معتبر ہونا بھی لازمی ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ کام ضایع نہ ہو، اس کا معیار بھی برقرار رہے۔ اردو کو جس طرح اپنی بائیس جلدوں پر مشتمل لغت  کی تکمیل پر فخر ہے اسی طرح اس ادبی تاریخ پر بھی فخر رہے گا۔

جالبی صاحب کثیر التصانیف تھے۔ غالباً 1988 میں ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے ’’ڈاکٹر جمیل جالبی۔۔۔۔سوانحی کتابیات‘‘ مرتب کرکے شایع کی تھی جس میں ان کی تصانیف کو تفصیل اور ’’سوانحی کتابیات‘‘ کی دل کش اصطلاح بھی تھی مگر جالبی صاحب کی تصانیف کا سلسلہ اس کے بعد تک جاری رہا۔ اب ان کی مطبوعات کی جو فہرست سامنے آئی ہے اس کے مطابق ان کی مطبوعات 37 بنتی ہیں جن میں تاریخ ادب اردو جلد چہارم بھی شامل ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں تصنیف و تالیف کا کام کرنے کے لیے ایک عمر درکار ہوتی ہے اور جالبی صاحب نے اپنی عمر اسی میں کھپائی۔

یہ تصانیف محض اپنی تعداد کے اعتبار سے اہم نہیں بلکہ معیار کے اعتبار سے بھی اہم ہیں۔ ان میں تنقید، تحقیق، لغت، افسانوی ادب، تراجم اور ادب کی متعدد اصناف پر ان کی گراں قدر کاوشیں شامل ہیں اور وہ اپنی ان اعلیٰ علمی کاوشوں میں زندہ رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔