دُعا 

نازلی فیصل  اتوار 10 مئ 2020
 ابتلا سے نجات کے لیے تدبیر کے ساتھ خالق کائنات کے حضور التجا اور فریاد کی بھی ضرورت ہے

ابتلا سے نجات کے لیے تدبیر کے ساتھ خالق کائنات کے حضور التجا اور فریاد کی بھی ضرورت ہے

؎  اے خاصۂ خاصان رسل وقت دُعا ہے

اُمت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے

دنیا اس وقت ایک عالمی وبا کے خطرے سے دوچار ہے۔ قہر الٰہی اس وفا کی صورت میں ساری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ایسی وبا جس کا کوئی توڑ نہیں۔ کوئی علاج نہیں اگر ہم سمجھیں تو یہ ایک طرح سے آزمائش بھی ہے اور عذاب الٰہی بھی۔ دِن بدن اس کا شکجہ سخت ہورہا ہے۔ ساری دنیا اس کے چنگل سے نکلنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ بڑی بڑی طاقتیں سرجوڑ کر اس کا علاج دریافت کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔لیکن قادرمطلق کی قدرت کے آگے بے بس و مجبور ہیں۔

اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ مقبوضہ کشمیر ہی کی مثال لے لیں ایک طویل عرصہ سے لاکھوں معصوم شہری کھلی جیل میں بند ہیں لیکن مغربی ممالک کی بات تو رہنے دیں اسلامی دنیا نے بھی اُن کے مصائب کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کی طرف توجہ نہیں دی۔ ایسے میں کیا یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ رب تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہوگا۔ اب صورت یہ ہے کہ مشرق سے مغرب تک ایک عجیب سی ویرانی ہے۔

ایک عجب سی خاموشی ہے۔ ایک عجب سی اداسی ہے جو رنگ و پہ میں سرایت کررہی ہے کیا ہونے والا ہے۔ کیسی فضا ہے۔ کیسی یاسیت ہے۔ آپس کا وہ میل جول، وہ ہنسی وہ قہقہے، سب وبا کی دھند میں کہیں کھو گئے ہیں۔ وہ رونقیں وہ تازگی، کچھ بھی تو نہیں رہا۔ سب خواب و خیال ہوکر رہ گیا ہے۔

مستقبل کا خوف دیمک بن کر کھائے جارہا ہے۔ اس پریشانی اوراندھیرے میں روشنی کا ایک در کھلا ہے۔ اس پر کوئی پابندی نہیں۔ یہ در ہے توبہ و استغفار کا۔ یہ در ہے معافی کا اور رب کے حضور دست دعا دراز کرنے کا۔ آیئے سجدے میں گر کر ، گڑگڑا کر، آنسوؤں سے تر چہرے اور ہاتھ پھیلا کر اپنے پروردگار سے معافی مانگیں۔ اس کی چوکھٹ پر سر رکھ کر تو دیکھو، رحمت و بخشش طلب کرکے تو دیکھ، وہ مالک حقیقی، تجھے کیسے اپنے کرم کی حفاظت میں لے کر فیض و مغفرت کے دریا بہاتا ہے۔ کیونکہ گناہوں سے معافی نزول رحمت کا سبب ہے۔ استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔

قرآن حکیم میں سورۃ ابقرۃ میںا رشاد ہوتا ہے ’’اور (اے حبیب) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہیے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہ (مراد) پا جائیں۔‘‘

کائنات اور کون مکاں کی ایک ایک چیز خد کی حمدوثنا میں محو ہے۔ ہمیں مایوس اور رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اٹھئے اس مالک دوجہاں سے معافی مانگئے۔ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہی ہماری تکالیف کا مداوا کرنے والا ہے۔ دُعا کی بڑی فضیلت ہے کیونکہ دُعا مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ دُعا عبادت کا مغز ہے۔ دُعا دین کا ستون اور آسمان کا نور ہے۔  جو دُعا مشکل کے وقت خضوع و خشوع کے ساتھ اور حضور قلب سے مانگی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔

آیئے اس کی بارگاہ میں آنسوؤں سے تردُعا مانگیں۔ معافی مانگیں کیونکہ وہی ہر چیز پہ قادر ہے۔ وہی بیماری دینے والا ہے، وہی شفا دینے والا ہے۔ وہی دُعائیں سننے والا ہے۔ وہی دُعائیں قبول کرنے والا ہے۔ وہ اللہ جو ہمیں ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے، خوف و دہشت نے ہمارے اعصاب کیوں سلب کرلیے ہیں؟ ہم کیوں یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں؟ اُٹھیے خدائے ذوالجلال اور عادل حقیقی کی بارگاہ میں کامل یقین اور صدق دل سے دُعا کریں کہ وہ ہم پر اپنا کرم کرے، رحم کرے۔ اپنے رحم و کرم کی ایسی بارش برسائے کہ یہ ساری بیماری و وباء اس بارش میں بہہ جائے اور پھر کبھی سر نہ اٹھا سکے۔

یاد رکھئے اس وقت ہمیں دعاؤں اور استغفار کی بہت ضرورت ہے۔ دنیا کے جھمیلوں میں پڑنے کے بجائے دل و جان سے عبادت کریں، صدقہ و حیرات کریں۔ اس مشکل گھڑی میں صبرواستقامت سے کام لیں۔ اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے توبہ و استغفار کریں۔ ہماری نجات اور فلاح دعا میں ہے۔

دعاؤں کے دیئے روشن کریں۔ ان دیوں کو خلوص دل سے جلائیں۔ ندامتوں اور کوتاہیوں کے آنسو لئے اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجائیں شاید آپ کی ندامتوں کے یہ آنسو آپ کی نجات کا ذریعہ بن جائیں اور وہ مالک حقیقی جس نے بن مانگے آپ کو اتنی نعمتیںعطا کی ہیں۔ اپنے پیارے حبیبؐ کے صدقے ہمیں معاف کردے۔اے پروردگار ہم ناچیز بندے تیرے آگے ہاتھ باندھے سراپا دعا ہیں۔ مانا میری غفلتوں اور گناہوں کی انتہا نہیں۔ میں اس کے بوجھ تلے دبا ہوں میں اس قابل تو نہیں لیکن اگر تیری شان کریمی کا سہارا مل گیا تو ساری تکالیف دور ہوجائیں گی۔

دُعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیات کریمہ اور احادیث موجود ہیں۔ دُعا رب تعالیٰ کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اُس کی ذاتِ پاک پر ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق،مالک، رازق ہے۔ وہ رب العالمین، ارحم الراحمین، احکم الحاکمین اور مالک الملک ہے۔ تمام عزتیں، عظمتیں، قدرتیں، خزانے، ملکیتیں، بادشاہتیں اسی کے پاس ہیں۔ سب کا داتا اور داتاؤں کا داتا وہی ہے۔ ساری مخلوق اسی کی بارگاہ کی محتاج اور اسی کے دربار میں سوالی ہے جبکہ وہ عظمتوں والا خدا بے نیاز، غنی، بے پروا اور تمام حاجتوں سے پاک ہے۔ بخششیں فرماتا اور جودوکرم کے دریا بہاتا ہے۔

ایک ایک فردِ مخلوق کو اربوں خزانے عطا کردے تب بھی اس کے خزانوں میں سوئی کی نوک برابر کمی نہ ہوگی اور کسی کو کچھ عطا نہ کرے تو کوئی اس سے چھین نہیں سکتا۔ وہ کسی کو دینا چاہے تو کوئی اُسے روک نہیں سکتا ہے اور وہ کسی سے روک لے، تو کوئی اُسے دے نہیں سکتا۔

جب ہم دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہی عقیدہ و ایمان ہمارے دل و دماغ میں شعوری یا لاشعوری طور پر موجود ہوتا ہے جو الفاظ و کیفیات کی صورت میں دُعا کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ اس حکمت کو سامنے رکھ کر غور کرلیں کہ جب دُعا اِس قدر عظیم عقیدے کا اظہار ہے تو کیوں نہ اعلیٰ درجے کی عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرارپائے۔

اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ جب رب کریم اور اُس کے پیارے حبیبؐ نے خود دُعا کے بارے میں یہ کچھ فرما دیا ہو تو ہمیں دُعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ انسان کوشش اور جدوجہد کو ترک نہ کرے اور اپنی طرف سے تمام تر مساعی کے بعد اللہ تعالیٰ سے مدد اور نصرت کی دُعا کرے لہٰذا اس مشکل دور میں ہمیں بھی اس موذی وباء کے مقابلے کے لیے تما معلوم اور میسروسائل کو بروئے کارلاتے ہوئے خالق کائنات سے رجوع کرنے کے لیے دُعا کا سہارا لینا چاہیے اور اس ابتلا کے خاتمے کی فریاد کرنی چاہیے، وہ رحیم و کریم ہے اور ہماری التجا کو ضرور شرف قبولیت بخشے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔