پنجاب میں بے سہارا اور لاوارث بچوں کے حوالے سے نئی قانون سازی کی تیاریاں

آصف محمود  اتوار 10 مئ 2020
لاوارث بچوں سے متعلق کسی حکومتی ادارے کے پاس کوئی اعدادوشمار نہیں فوٹو: فائل

لاوارث بچوں سے متعلق کسی حکومتی ادارے کے پاس کوئی اعدادوشمار نہیں فوٹو: فائل

 لاہور: پنجاب میں بے سہارا،لاوارث اورٹھکرائے ہوئے بچوں کے تحفظ ،ان کی دیکھ بھال اوران کے شیلٹرزہومز کے حوالے سے بڑافیصلہ ہونے جارہا ہے۔ جس کے تحت پنجاب میں لاوارث اوربے سہارابچوں کی پرورش اوردیکھ بھال کرنیوالی این جی اوز اوراداروں کو چائلڈپروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے پاس رجسٹریشن کروانا ہوگی اورتمام بچوں کا ڈیٹا بھی فراہم کرنا ہوگا، چائلڈپروٹکیشن بیوروکی اجازت کے بغیرکوئی بھی ادارہ کسی لاوارث اوربے سہارابچے کو کسی کو گود نہیں دے سکے گا۔

پنجاب میں بے سہارا، لاوارث اور ٹھکرائے ہوئے بچوں کے تحفظ ،ان کی دیکھ بھال اوران کے شیلٹرز ہومز کے حوالے سے بڑا فیصلہ ہونے جارہا ہے۔ پنجاب میں لاوارث اوربے سہارابچوں کی پرورش اوردیکھ بھال کرنیوالی این جی اوز اوراداروں کو چائلڈ پروٹیکشن اینڈویلفیئربیوروکے پاس رجسٹریشن کروانا ہوگی اورتمام بچوں کا ڈیٹا بھی فراہم کرنا ہوگا، چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی اجازت کے بغیر کوئی بھی ادارہ کسی لاوارث اور بے سہارا بچے کو کسی کوگود نہیں دے سکے گا۔

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیوروکی چیئرپرسن سارہ احمد کہتی ہیں کہ اس حوالے سے پنجاب بے سہارااورٹھکرائے گئے بچوں کے تحفظ کے ایکٹ 2004، ترمیم شدہ 2017 کے سیکشن 20 اے کے تحت پنجاب میں کام کرنیوالی ایسی تمام این جی اوز اورادارے جو لاوارث ،بے سہارا اوربچوں کی پرورش کررہے ہیں ان کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ہمارے پاس رجسَٹریشن کروائیں اوربچوں کا ڈیٹا شیئرکریں،اس ایکٹ میں ترمیم کے بعد ہم نے این جی اوز اوراداروں کی رجسٹریشن کے لئے قواعدوضووابط بنانے تھے جو 2017 کے بعد سے نہیں بن سکے تھے لیکن اب ہم نے یہ رولز بنالیے ہیں اور صوبائی کابینہ کی سب کمیٹی نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے ، اب ان رولز کی حتمی منظوری صوبائی کابینہ نے دینی ہے جس کے بعد وزیراعلی دستخط کریں گے اورپھر یہ رولز لاگو ہوجائیں گے۔

پنجاب میں اس وقت لاوارث بچوں کے تحفظ ، ان کی پرورش اورانہیں رہائش کی سہولت فراہم کرنے والی این جی او سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ ہوتی ہیں، نئے قانون کے بعد بطور این جی او ان کی رجسٹریشن سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ ہی کرے گا لیکن لاوارث بچوں کو تحویل میں رکھنے کے حوالے سے انہیں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے پاس بھی خود کو رجسٹر کروانا ہوگا۔

واضح رہے کہ پنجاب میں اس وقت ایدھی، ایس او ایس ویلج، آغوش اور دارالشفقت سمیت درجنوں این جی اوز اور ادارے بچوں کے حقوق کے تحفظ، ان کی تعلیم، صحت اورانہیں رہائش فراہم کرنے کے حوالے سے کام کررہے ہیں لیکن ان کے پاس کتنے بچے ہیں اوروہ بچے کہاں سے آئے اس سے متعلق کوئی اعدادوشمار کسی حکومتی ادارے کے پاس نہیں ہیں۔

بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنیوالے بعض اداروں کو شبہ ہے کہ لاوارث اور ٹھکرائے ہوئے بچوں کو شیلٹر فراہم کرنے والے بعض ادارے ان بچوں کی اسمگلنگ میں بھی ملوث ہیں جبکہ یہ ادارے جس بچے کو چاہے کسی کو بھی گود دے سکتے ہیں، اس حوالے سے ان داروں کے اپنے قانون اور ضابطے ہیں ،یہ امر بچوں کے مستقبل کے لئے خطرناک ہے۔

سارہ احمد کہتی ہیں کہ اس قانون کے بعد اب کوئی بھی ادارہ اوراین جی او کسی بھی لاوارث اور بے سہارا بچے کو عدالتی اجازت کے بغیر گود نہیں دے سکے گی۔ بچوں کی اڈاپشن کے حوالے سے وہی قاعدہ قانون اختیار کرنا ہوگا جو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے ہاں رائج ہے۔

بیورو کے ایک سینیئر اہل کار نے بتایا کہ ابھی حال ہی میں نارووال کے ڈسٹرکٹ اسپتال کے ایم ایس نے ایک لاوارث بچہ کسی فیملی کو گود دے دیا ہے، ہم نے جب ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو اسپتال کے ایم ایس نے ہمیں کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا جس پر اب ہم نے مقامی عدالت کی طرف سے اسپتال کے ایم ایس کوقانونی نوٹس بھیجا ہے اورکہا گیا ہے کہا کہ اس بچے کو عدالت میں پیش کیا جائے اور بتایا جائے کہ اسپتال کے ایم ایس نے کس قانون کے تحت ایک لاوارث بچہ کسی فیملی کو گود دے دیا۔

سارہ احمد نے توقع ظاہرکی ہے کہ کورونا لاک ڈاون کے بعد جیسے ہی پنجاب کابینہ کا اجلاس شروع ہوتا ہے ان کی کوشش ہوگی کہ یہ رولز کا مسودہ منظوری کے لیے کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کروایا جائے تاکہ ان کی منظوری دی جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔