عید سیزن کے دوران گزشتہ سال کی نسبت کاروبار میں 86 فیصد کمی

احتشام مفتی  منگل 26 مئ 2020
80 فیصد لوگوں نے صرف بچوں ہی کی خریداری کی فوٹو: فائل

80 فیصد لوگوں نے صرف بچوں ہی کی خریداری کی فوٹو: فائل

 کراچی: شہر قائد میں رواں عید سیزن کے دوران گزشتہ سال کی نسبت کاروبار میں تقریبا 86 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی کے چھوٹے تاجروں کے عید سیزن کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ عید سیزن میں تجارتی مراکز صرف 10 یوم کے لیےمحدود اوقات کے لیے کھولے گئے اور اس دوران تاجروں نے بمشکل 5 سے 6 ارب روپے کی اشیاء فروخت کیں اس طرح رواں سال عید سیزن میں گزشتہ سال کی نسبت کاروبار میں تقریبا 86 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور سال 2020 میں عیدالفطر کا سیلز سیزن ملکی تاریخ کا بدترین عید سیل سیزن رہا۔

2 ماہ لاک ڈاؤن کے بعد کراچی کی مارکیٹیں 11مئی تا 23 مئی کے دوران تین تعطیلات کے باعث صرف 10 دن کھل سکیں، گرمی کی شدت اور تاجر نمائندوں کے سخت دباؤ کے باوجود حکومت سندھ نے افطار کے بعد بازار کھولنے کی اجازت نہیں دی اور دکانیں 4 بجے بند کرنے کی پابندی عید سے ایک روز قبل تک برقرار رہی، گزشتہ سال عید سیل کا تخمینہ 35ارب روپے جبکہ رواں سال بمشکل 5 تا 6 ارب روپے کی فروخت کا حجم رہا ہے۔ اگر حکومت سندھ افطار سے سحری تک کاروبار کرنے کی اجازت دیتی تو کاروباری حجم 10 تا 12 ارب روپے تک پہنچ سکتا تھا۔ دو ماہ کی کاروباری بندش اور لاک ڈاؤن سے عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی، بیشتر والدین نے استطاعت نہ ہونے کے سبب عید کی خریداری کو صرف اپنے بچوں تک محدود رکھا، 80فیصد خریداری بچوں کے ملبوسات، جوتے، پرس، کھلونے، ہوزری وغیرہ کی مد میں کی گئی۔

عید کے حوالے سے شناخت رکھنے والی اہم مارکیٹوں میں توقعات کے برعکس خریداری نہ ہوسکی، لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد مارکیٹوں میں امڈ آنے والا خریداروں کا ریلا مصنوعی ثابت ہوا، بیشتربازاروں میں نظر آنے والی گہما گہمی ونڈو شاپنگ ثابت ہوئی، قیمتوں میں اوسطاً 20 تا 25 فیصد اضافے سے خریداروں کی اور تاجروں کی اکثریت نے پچھلے سال کے بچے ہوئے اسٹاکس کا مال فروخت کیا، رہی سہی قوتِ خرید بھی ختم ہوگئی جبکہ رمضان المبارک میں گرانفروشوں نے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچاکر غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ دی۔

آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے موجودہ صورتحال کو ملکی معیشت اور تجارت کیلئے تباہ کُن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا وائرس انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی نگل رہا ہے، سال کے سب سے بڑے سیل سیزن میں بھی دو ماہ لاک ڈاؤن کے نقصانات کا ازالہ نہ ہوسکا، ہوش رُبا مہنگائی، بیروزگاری اور قوتِ خرید میں کمی کے باعث خریداروں کے ارمانوں اور دکانداروں کی امیدوں پر پانی پھرگیا، تجارتی مراکز میں چہل پہل کا سب سے زیادہ فائدہ ٹریفک پولیس کو ہوا، کاغذات کی جانچ پڑتال کے بہانے رشوت ستانیوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا، جیب کتروں کی بھی چاندی ہوگئی، حفاظتی پولیس نے اسنیپ چیکنگ کی آڑ میں جی بھر کر عیدی بنائی، بیشتر دکانوں میں اسٹاک کیا گیا 60 فیصد سے زائد مال فروخت نہ ہوسکا۔

عتیق میر نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں فروخت میں مجموعی طور پر86 فیصد تک کمی رہی، تاجروں کو عید بعد کاریگروں اور کارخانے داروں کو رقوم کی ادائیگی کے لالے پڑگئے ریڈی میڈ گارمنٹس کی بہترین ورائٹی بھی استطاعت سے محروم خریداروں کو متوجہ نہ کرسکی، کپڑے کی مارکٹیں بند ہونے سے درزیوں کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوا، خریداری ریڈی میڈ گارمنٹس، جوتے، مصنوعی زیورات اور زیبائش کے سامان تک محدود رہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔