عالمی ادارۂ صحت کا پاکستان میں لاک ڈاؤن کی نرمی پر اظہارِ تشویش

ویب ڈیسک  منگل 9 جون 2020
عالمی ادارۂ صحت نے پچاس ہزار ٹیسٹ یومیہ کی استعداد پیدا کرنے کی تجویز دی ہے۔ وزیر صحت پنجاب کو خط۔ فوٹو، فائل

عالمی ادارۂ صحت نے پچاس ہزار ٹیسٹ یومیہ کی استعداد پیدا کرنے کی تجویز دی ہے۔ وزیر صحت پنجاب کو خط۔ فوٹو، فائل

لاہور: عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں لاک ڈاؤن کی نرمی سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یکم اور 22 مئی کو پابندیاں اس وقت اٹھائی گئیں جب ملک اس فیصلے کے لیے بنیادی تقاضوں پر پورا نہیں اترتا تھا۔

پنجاب  کی وزیر صحت یاسمین راشد کے نام پاکستان میں عالمی ادارۂ صحت کی سربراہ پلیتھا ماہیپالا نے اپنے خط میں کہا ہے کہ اگرچہ کورونا وائرس کے موجودہ کیسز کی زیادہ تر تعداد بڑے شہروں میں ہیں تاہم یہ وبا ہر ضلع میں پھیل چکی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے 12 اپریل سے سماجی فاصلے کے اقدامات اور اسکولوں کی بندش سمیت سفری پابندیوں جیسے فیصلے کیے تاہم یکم مئی اور بعد ازاں 22 مئی کو لاک ڈاؤن کی پابندیوں میں دی جانے والی رعایت کے باعث کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آئی۔

ڈبلیو ایچ او نے پاکستان میں وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے متاثرہ علاقوں میں دو ہفتے لاک ڈاؤن اور دو ہفتے نرمی کی پالیسی اختیار کرے۔ علاوہ ازیں خط میں یومیہ  50 ہزار ٹیسٹ کرنے اور صحت عامہ کے نظام کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔

پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے عالمی ادارہ صحت کے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ  پہلے دن سے یہ موقف ہے کہ حکومت کورونا وائرس سے متعلق مکمل معلومات فراہم کررہی ہے، خط میں ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے اور وزیر اعلیٰ بھی قواعد و  ضوابط کی خلاف ورزی کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کرچکے ہیں۔

لاک ڈاؤن میں نرمی کب کی جاسکتی ہے؟

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق جو بھی ملک لاک ڈاؤن کی پابندیاں ختم کرنا چاہتا ہو اس کا ان شرائط پر پورا اترنا ضروری ہے :

  • بیماری کا پھیلاؤ قابو میں ہو
  • نظام صحت ہر کیس کی تشخیص ، ٹیسٹ، قرنطینہ اور علاج کرنے اور متاثرین کے رابطے میں آنے والوں  کا سراغ لگانے کے قابل ہو
  • زیادہ متاثرہ علاقوں میں ہاٹ اسپاٹس کم ہوگئے ہوں
  • اسکولوں، کارگاہوں اور دیگر اہم مقامات پر احتیاطی اقدامات کیے جارہے ہوں
  • نئے کیسز کی آمد سے نمٹنے کی استعداد پیدا کرلی گئی ہو
  • عوام کو وبا کے بعد پیدا شدہ حالات میں زندگی گزارنے کے لیے شعور و آگاہی اور مدد فراہم کی جارہی ہو

ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان ان شرائط پر پورا نہیں اترتا اور ملک میں وائرس کے پھیلاؤ کی شرح تشویش ناک ہوچکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔