چور سے مافیا تک

اکرم ثاقب  پير 13 جولائی 2020
پاکستانی قوم اس انتظار میں ہے کہ ان چوروں، گاڈ فادروں اور مافیا سے چھٹکارا کب ملے گا؟ (فوٹو: فائل)

پاکستانی قوم اس انتظار میں ہے کہ ان چوروں، گاڈ فادروں اور مافیا سے چھٹکارا کب ملے گا؟ (فوٹو: فائل)

’’رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ حضرت بلھے شاہ نے اپنے لیے کہا تھا۔ اب ہم اس کو یوں تبدیل کرکے اپنا سکتے ہیں کہ ’’چور چور کردی نی میں آپے مافیا ہوئی‘‘۔ لگتا ہے بات گاڈ فادر تک پہنچے گی کیونکہ اب اس کی تصویریں اخبارات میں اور سوشل میڈیا پر آنا شروع ہوگئی ہیں۔

کچھ عرصہ سے ایک نیا بیانیہ جنم لے چکا ہے اور وہ ایک ہندوستانی ضرب المثل کے مترادف ہے کہ اتنا کیچڑ اچھالو کہ کچھ خود ہی دوسرے کے منہ پر چمٹ جائے گا۔ مخالف کو اتنی مرتبہ چور چور کہو کہ وہ خود بھی پریشان ہوکر سوچنے لگے کہ کیا میں واقعی چور ہوں؟ آپ پھر موج سے ہوں گے کہ مخالف کو اپنی پڑی رہے گی، وہ اپنا دفاع ہی کرتا رہے گا، اپنی صفائی کے چکر میں پڑا رہے گا اور آپ کی چوری، میرا مطلب حکومت کی طرف اس کی توجہ نہیں جائے گی۔

اب تک تو یہ پالیسی بڑی کارگر ثابت ہوئی لیکن اب اس میں کچھ نیا پن ڈالنا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ ہر انسان ایک ہی بات دہرانے سے اکتا جاتا ہے۔ اس عظیم مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے سیانوں نے سر جوڑے اور اس بیانیہ میں کچھ اضافہ کرکے اسے آگے لے کر چلنے کا پختہ عزم دہرایا۔ کیونکہ ابھی تک سیانوں کے پاس اپنی کارکردگی نام کی کوئی چڑیا نہیں ہے۔

وہ تو کورونا جیسی اَن دیکھی مصیبت نے آکر اس ہجوم بے کراں یا بے کار کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ورنہ… ورنہ بھی یہی حالات ہونے تھے، کیونکہ ہم اس دیس کے باسی ہیں جس دیس میں بادشاہ سے مراعات نہیں مانگی جاتیں بلکہ بندے بڑھانے کی استدعا کی جاتی ہے کہ جلدی جلدی جوتے پڑیں اور ہم اپنے کام پر پہنچیں۔

ساری دنیا میں کورونا ہے مگر ہمارے ہاں اس کے مزاج ہی اور ہیں۔ خواص کا ایک خاص آدمی پہلے اسے معمولی نزلہ زکام کہہ کر ہمارا موت پر ایمان پختہ کرتا ہے کہ سکون تو موت کے بعد ہی ہے، سکون کی پہلی رات قبر کی رات ہی ہوگی۔ اس کے بعد اشرافیہ لاک ڈاؤن کر دیتی ہے۔ جب 26 مریض رپورٹ ہوئے تھے۔ جب 2600 ہوئے تو لاک ڈاؤن کھول دیا گیا۔ اب ایس او پی، ایس او پی کا نعرہ مستانہ لگنے لگا۔ اور پھر کورونا کو سمجھا دیا گیا کہ وہ ہفتے میں پانچ دن بندہ بن کر رہے اور دو دن بازاروں میں گھومتا پھرے، اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔

مسجد میں سب سے زیادہ کورونا وار کرتا ہے اور باقی جگہوں پر یہ ہاتھ ہلکا رکھتا ہے۔ اسی لیے بڑے بڑے با اقتدار لوگ جوتوں سمیت مساجد کا دورہ کرتے ہیں کہ کورونا کو جوتے کی نوک پر رکھ کر باہر پھینک دیں۔

یہ کہاں آگئے ہم کورونا کے ساتھ چلتے چلتے، بات تو ہم چوروں کی کر رہے تھے۔ تو دوستو! اب چور چور کہنا زیادہ موثر نہیں ثابت ہورہا تو اس کی دوسری ڈگری کی ضرورت آن پہنچی ہے۔ اب چور سے چوروں کا گروہ یا جتھا کہنا مناسب ہوگا مگر ہم تو تیسری ڈگری کے استعمال کے عادی ہیں، اس لیے ہم نے چوروں کا گروہ کہنا جائز نہیں سمجھا اور سیدھے ہی مافیا پر آگئے۔ ہم ببانگ دہل اب اپنے مخالفین کو مافیا کہیں گے۔

’’مافیا آ نہیں رہی، بلکہ مافیا آگئی ہے‘‘۔ اسے روکنا ہی اب ہمارا نعرہ ہوگا۔ جو بھی برائی ہوگی اب وہ چور نہیں کریں گے بلکہ اسے اب مافیا کے کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ پٹرول کی قلت ہو یا قیمتوں میں اضافہ، مافیا کررہی ہے۔ آٹا نہیں مل رہا، عین گندم کے موسم میں عدم دستیاب ہے، مافیا چھا گئی ہے۔ چینی مافیا تو سب سے پہلے اپنا رنگ جما چکی ہے۔ پہلے جو کچھ ہو رہا تھا وہ گاڈ فادر کروا رہا تھا، اس کے بعد چالیس چور آگئے۔ اب چور ترقی کرتے کرتے مافیا بن گئے ہیں مگر حکومت کی ترقی اور کارکردگی دیکھنے کا ایک زمانہ منتظر ہے۔

پاکستانی قوم اس انتظار میں ہے کہ ان چوروں، گاڈ فادروں اور مافیا سے چھٹکارا کب ملے گا؟ ان چوروں کو کون پکڑے گا؟ کیا ارطغرل آئے گا؟ یا پھر چوہدری ثاقب نثار کی خدمات دوبارہ حاصل کرنا پڑیں گی یا چوہدری نثار علی خان کی؟ میں بھی سوچ رہا ہوں آپ بھی غور کیجئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اکرم ثاقب

اکرم ثاقب

بلاگر ایک شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ ہلکے پھلے انداز میں سنجیدہ بات کہتے ہیں۔ زندگی کا ہر پہلو انہیں عزیز ہے۔ انگریزی، اردو اور پنجابی میں لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر ہینڈل @akramsaqib پر فالو کیا جاسکتا ہے جبکہ ان کی فیس بُک آئی ڈی akram.saqib.18 ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔