پانچ ممالک میں نایاب ٹائیگر کی تعداد میں اضافہ

ویب ڈیسک  اتوار 2 اگست 2020
دس سال قبل شروع کئے گئے منصوبے کے تحت دنیا بھر میں ٹائیگر کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو: فائل

دس سال قبل شروع کئے گئے منصوبے کے تحت دنیا بھر میں ٹائیگر کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو: فائل

نیپال: اگر آپ نایاب جانوروں کے تحفظ کے لیے پریشان رہتے ہیں تو یہ خبر آپ کے لیے ہے کیونکہ پانچ ممالک سے نایاب ٹائیگر کی آبادیوں میں حوصلہ افزا اضافے کی خبر ملی ہے۔

جانداروں کے تحفظ کے ماہرین نے اعلان کیا ہے کہ بھوٹان، چین، بھارت، روس اور نیپال میں پائے جانے والے جنگلی ٹائیگر کی تعداد تیزی سے گھٹ رہی تھی تاہم دس برس قبل شروع کئے گئے ایک منظم منصوبے کےبعد ان تمام ممالک میں ٹائیگر کی آبادیوں کو خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

سال 2010 میں ٹی ایکس ٹو نامی مہم شروع کی گئی تھی جس کے تحت معلوم کیا گیا کہ دنیا کے 13 ممالک کے قدرتی ماحول میں ٹائیگر کی کل تعداد 3200 ہی رہ گئی تھی اور منصوبے کے تحت 2022 تک ان کی آبادی کو دوگنا کرنا ہے۔ پروگرام ختم ہونے سے دوسال پہلے ہی کئی اچھی خبریں سامنے آئی ہیں۔

سب سے اچھی خبر نیپال سے آئی ہے جہاں 2009 میں صرف 121 ٹائیگر دیکھے گئے اور 2018 میں ان کی تعداد 235 نوٹ کی گئی ہے۔ اس وقت بھارت میں ٹائیگر کی تعداد 2600 سے 3350 کے درمیان جاپہنچی ہے جو 2006 کی تعداد سے دوگنا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف نے کہا ہے کہ نیپال کے صرف ایک مسکن ، بارڈیا نیشنل پارک  میں 2008 میں ٹائیگر کی تعداد 18 تھی جو اب 87 تک پہنچ چکی ہے۔

روس میں گزشتہ دس برس ٹائیگر کی تعداد میں 15 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد 540 کی تعداد میں جانور نوٹ کئے گئے ہیں۔ بھوٹان کے ایک رائل مناس پار میں ٹائیگروں کی تعداد 10 سے 22 ہوچکی ہے۔

سال 2010 میں چین میں ٹائیگر کی تعداد 20 سے زیادہ نہ تھی اور اب ان کی نسل خیزی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نایاب ترین جانور کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اب بھی شکاریوں اور قدرتی مسکن کی تباہی سے ان کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

واضح رہے کہ ٹی ایکس ٹو منصوبے کے تحت سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی گئی ہے کہ ٹائیگر کے قدرتی ماحول اور مسکن کو تحفظ دیا جائے اور دوسرے مرحلے میں ان کے شکار اور اسمگلنگ کو روکا جائے ۔ ان دونوں تدابیر پر عمل کرتے ہوئے تیزی سے معدوم ہوتے ٹائیگر کے تحفظ میں مدد ملی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔