’مِیم‘ جرنلزم

ایمان منیر  اتوار 9 اگست 2020
خبروں میں طنز ومزاح کا بگھار لگائے ایک نئی طرح کی ’صحافت‘

خبروں میں طنز ومزاح کا بگھار لگائے ایک نئی طرح کی ’صحافت‘

جب سے ہم نے اکیسویں صدی میں قدم رکھا ہے، حالات اس قدر برق رفتاری سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔

زندگی اور وقت کی یہ تیز رفتاری ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ بہت سی اہم باتیں منظر عام سے غائب ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ خبروں کی بہتات کے باعث ایسا لگتا ہے کہ شاید لوگوں کی ہر لمحے سامنے آتی ہوئی اِن خبروں سے دل چسپی ذرا کم ہوتی جا رہی ہے، یا وہ بوجوہ لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتے ہوئے منظرنامے سے تنگ آچکے ہیں۔

اس لیے اب لوگ اخبار پڑھنا چھوڑ دو، خبریں نہ سنا کرو، جیسی باتیں کرنے لگے ہیں۔۔۔ اگرچہ صحافت میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ لوگوں تک سچ پر مبنی بات ہی پہنچے، ایسے میں نوجوان نسل کو اہم خبروں سے آگاہ رکھنا ایک چیلنج کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ بالخصوص پاکستان کے نوجوان اپنے آپ کو ’مطبوعہ‘ اور ’برقی ذرایع اِبلاغ‘ سے لاتعلق رکھ کر ڈیجیٹل میڈیا سے قربت ظاہر کرتے ہیں۔ اگر ہر چیز ’گوگل‘ پر میسر بھی ہو، تب بھی انسان کو دوسرے انسان کی ضرورت رہتی ہے اور یہی بات صحافت کی بنیاد بنی ہے۔

سائنس کے تجربات نے ہر چیز کو ہماری انگلیوں کی پوروں پر سمیٹ دیا ہے، اگر ایک شخص یہ جانتا ہو کہ کام صرف ایک انگلی کی جُنبش سے انجام دیا جا سکتا ہے، تو وہ کبھی اس سے زیادہ زحمت نہیں کرے گا اور ایسا کرنے والے کو عام طور پر بے وقوف ہی سمجھا جائے گا یا پھر یہ بات تصور کی جاتی ہے کہ شاید فلاں شخص جدید دور میں غیر متعلقہ ہے، ناواقف ہے یا نئی معلومات نہیں رکھتا۔

شاید یہ جدید سائنسی ترقی کا ثمرہ ہے کہ ہر فرد افراتفری اور جلد بازی میں دکھائی دیتا ہے، اور کبھی یہ صورت حال ہماری کوئی نہ کوئی پریشانی کا روپ بھی دھار لیتی ہے، اب ایسے میں کوئی شخص ہر وقت سنسنی خیز خبریں سننے گا تو نہ صرف مایوس رہے گا، بلکہ اس کا مزاج بھی برہم ہوتا چلا جائے گا۔ ان تمام حالات کے پیشِِِِِِِِِِِِِ نظر ایک صحافی معاشرے کے لیے کیسے مفید ثابت ہو سکتا ہے اور اس کو لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ خلق خدا نے شاید اسی صورت حال کا جواب ’میم جرنلزم‘ Meme Journalism)) ہے۔

’میمز‘ دراصل کمپیوٹر پر ڈیزائن کی جانے والی ایسی مصوری یا تصاویر ہوتی ہیں، جن میں کوئی ایسا واقعہ ہلکے پھلکے انداز، طنزیہ یا مضحکہ خیز انداز میں بیان کیا گیا ہوتا ہے، جو حقیقت میں پیش آیا ہو۔ نہ صرف تصاویر بلکہ اب وڈیوز بھی اس زمرے میں شامل ہو چکی ہیںِ۔ یہ ’میمز‘ مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ دل چسپ، مدلل، طنزیہ، بے حد متاثر اور قائل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کا زیادہ وقت اب ٹی وی کی بہ نسبت ’سوشل میڈیا‘ پر گزرتا ہے، اس کی بنیادی وجہ دل چسپ ’میمز‘ ہی ہوتی ہیں، جن کو نظر انداز کرنا نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔

سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) میں گردش کرنے والی ان ’میمز‘ کو فی الوقت تو صحافت نہیں سمجھا جاتا، لیکن چند باتیں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ یہ صحافت کی ایک نئی اور ابھرتی ہوئی قسم ہو سکتی ہے۔

۱) میمز ’سوشل میڈیا‘ سے ہی ترتیب دی جاتی ہیں اور لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس استعمال کرتی ہے، بالخصوص نوجوان نسل دن بھر فیس بک، ٹوئٹر، اور انسٹاگرام وغیرہ پر مصروف پا ئی جاتی ہے۔

۲) میمز کا ہماری ملکی ثقافت سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے، جس طرح ہر ملک کا الیکٹرانک اور پرنٹ ذرائع ابلاغ اس ملک کی اپنی زبان میں ہوتا ہے، اس ہی طرح یہ میمز بھی ملکی ثقافت کے مطابق مزاح کا منفرد انداز تشکیل دیتی ہیں اور اس معاشرے کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔ گذشتہ کچھ دنوں سے وزیراعظم عمران خان، علامہ ضمیر اختر نقوی، وفاقی وزیر زرتاج گل، عدنان سمیع، وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور دیگر شخصیات اس کا موضوع بنیں۔ اس کے علاوہ بھارتی فلم ہیرا پھیری اپنی ریلیز کے سالوں بعد ایک بار پھر مقبول ہو گئی۔

دیکھا جائے تو یہ سب باتیں اردو ادب میں موجود ضرب الامثال میں بھی قابل قدر اضافہ کرتی ہیںِ۔ مثال کے طور پر ضمیر اختر نقوی صاحب کا ایک نہایت بے ساختہ جملہ ’یہ تو ہوگا۔۔۔‘ اب ہر کسی کی زبان پر ہے، اس کو ادا کرتے ہی سننے والے قہقہے لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ علامہ صاحب کا دل چسپ اور توجہ کو گرفت میں لینے والا انداز بیان ہے۔ ضرب الامثال بھی ہمارے معاشرے سے جڑے ہوئے مختلف واقعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں، جو ہوتے تو ایک جملے کی صورت میں ہوتے ہیں، لیکن اس کے معانی بہت وسیع ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آگے چل کر یہ ہماری زبان کی جدید ضرب الامثال کی فہرست میں شامل ہو جائیں۔

۳) لوگوں کی جانب سے مختلف ’میمز‘ کو تیزی سے ایک دوسرے تک پہنچانا یا ’شیئر‘ کرنا چند ہی منٹوں میں اِن میمز کو اِدھر سے اُدھر عام کر دیتا ہے، اس لیے چاہے اس بات پر تو اختلاف ہو کہ یہ آنے والے وقتوں میں صحافت کا حصہ بنیں گی یا نہیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ بلاشبہہ سوشل میڈیا پر موجود عوام کے درمیان سیاسی اور سماجی بحث و مباحثے کا ایک کام یاب نسخہ ہے۔ جس طرح فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی کی مقبولیت نے صحافت کی نئی اقسام متعارف کروائیں اس ہی طرح ’میمز‘ بھی صحافت کی مروجہ تعریف میں ترمیم کا باعث بن سکتی ہے۔

طنزومزاح بھی ’اِبلاغیات‘ میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے، جس کو شاید ہمارے قدیم مشرقی معاشرے نے ایک کارآمد شعبۂ زندگی تسلیم نہ کیا ہو، لیکن اگر غور کیا جائے، تو کوئی بھی شخص ’میمز‘ سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گویا تمام ہی سیاسی اور مقبول شخصیات اس کی لپیٹ میں آچکی ہیں، یہ در اصل ’ڈیجیٹل میڈیا‘ کے فروغ سے سامنے آنے والی ایک چیز ہے، جسے ’انفوٹینمنٹ‘ کی ایک تیزرفتار اور غیرمنظم قسم کہا جا سکتا ہے۔

اس لیے یہ باقی ذرایع اِبلاغ کے طرز سے مختلف ہے۔ کسی خبر کو ٹی وی پر سننے سے قبل ہی بہت سی ’خبریں‘ میمز کی صورت میں چل رہی ہوتی ہیں اور لوگوں کو اپنی جانب اس طرح متوجہ کر لیتی ہیں کہ انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے، یعنی ایک طرح سے میم بہت سی خبروں کو موضوع بنائے رکھنے کا ذریعہ بھی ہیں، اور یہ ’میمز‘ ہمیں سمجھ میں بھی اسی وقت آتی ہیں کہ جب ہم اصل خبر سے واقف ہوں، اس لیے ہم چاہے عام صحافت میں اِسے شامل نہ کریں، لیکن اس کے صحافت سے اِس قریبی تعلق سے انکار نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے کوئی اہم خبروں سے بے خبر نہیں رہ پاتا، گویا اس ہی کو اگر ذمہ دارانہ طریقے سے استعمال کیا جائے، تو بلا شبہ ’میم جرنلزم ‘ اپنے اندر بہت قوت اور کام یاب مستقبل رکھتا ہے۔

ہمارے معاشرے کو اب شاید ایک نئے طرزعمل کی ضرورت ہے۔ اپنی بات کا اختتام سر سید احمد خان کی بات پر کروں گی۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’یہ بات خیال کی جاتی ہے کہ رسومات کی پابندی نہ کرنے سے آدمی خراب کاموں اور بری باتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، مگر یہ بات صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ انسان کی ذات میں جیسے خراب کام کرنے کی قوتیں اور جذبے ہیں ویسے ہی ان کو روکنے کی بھی قوتیں اور جذبے ہیں مثلاً ایمان یا نیکی کا جوہر انسان کے دل میں ہے، پس خراب کام ہونے کا یہ باعث نہیں ہے کہ اس نے رسومات کی پابندی نہیں کی، بلکہ یہ باعث ہے کہ اس نے ایک قسم قوتوں اور جذبوں کو شگفتہ اور شاداب اور قوی کیا ہے اور دوسری قسم کی قوتوں اور جذبوں کو پژمردہ اور ضعیف۔‘‘

’میم جرنلزم‘ صحافت کے عام فہم طر اور روایتی انداز سے قدرے مختلف ہے، لیکن یہ غیر سنجیدہ سمجھی جانے والی فیلڈ کس قدر لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس کا اندازہ بھی آنے والے وقتوں میں ہوجائے گا۔ ’میمز‘ ایک غیررسمی ذریعہ اِبلاغ ہے، جسے ہمارے معاشرے میں عام طور پر وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے اور نوجوان نسل کی فراغت اور مشاغل سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن سر سید احمد خان کی یہ تحریر یاددہانی کراتی ہے کہ دور کے ساتھ ساتھ روایتی انداز اور طور طریقے بدل سکتے ہیں اور اس کا مثبت یا منفی ہونا انسان کی ذاتی قوتیں اور جذبے طے کرتے ہیں۔ یہاں جو بات قابلِِِِ غور و فکر ہے، وہ یہ ہے کہ ’سوشل میڈیا‘ (سماجی ذرایع اِبلاغ) پر گردش کرنے والی ’میمز‘ کسی کی ذات کو نشانہ نہ بنائیں، اکثر ہم غیر مناسب اقوال کو اظہارِرائے کی آزادی اور اپنا حق سمجھ لیتے ہیں، اس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔