عالمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے نئے سیاسی نظام کی ضرورت

ارشاد انصاری  بدھ 12 اگست 2020
اگر حکومت مخالف سیاسی جماعتیں متحرک ہیں تو حکومت بھی خاموش نہیں بیٹھی۔ فوٹو: فائل

اگر حکومت مخالف سیاسی جماعتیں متحرک ہیں تو حکومت بھی خاموش نہیں بیٹھی۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد:   پچیس جولائی کو عام انتخابات کا دوسرا سال مکمل ہونے پر حکمران جماعت کی جانب سے اسے تبدیلی اور ملک سے دو سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری کے خاتمے کا دن قرار دیا گیا جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسے یوم سیاہ قرار دیا۔

حکمران جماعت نے اپوزیشن کے تمام تر الزمات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے عوام کو پُر امید رہنے کی نوید سنائی ہے۔ اپوزیشن پنجاب میں تبدیلی کی اُمید لگائے بیٹھی تھی۔ ق لیگ ایک بار  پھر اہمیت اختیار کئے ہوئے ہے لیکن دوسری طرف حکومت بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہے وہ بھی متبادل پلان تیار کئے ہوئے ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما ایک بار پھر نیب کے ریڈار پر ہیں  کچھ کی نیب یاترا کے پروانے جاری ہوچکے ہیں کچھ کے ہونے والے ہیں۔

اگر حکومت مخالف سیاسی جماعتیں متحرک ہیں تو حکومت بھی خاموش نہیں بیٹھی۔ ایک طرف مسلم لیگ(ن)کے کے اندر فارورڈ بلاک کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ (ق) لیگ کے رہنماوں کے خلاف احتساب میں کوئی ریلیف ملنے کی توقع نہیں ہے۔ دوسری طرف مرکز میں تبدیلی کیلئے بھی حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

ملک کی داخلی صورتحال سے کہیں زیادہ بڑے چیلنجز خارجی محاذ پر اُبھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب  کے درمیان بھی فاصلے بڑھنے کی اطلاعات ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے رواں سال نومبر میں لوٹائے جانے والا قرضہ  وقت سے پہلے جولائی میں ہی واپس کرا دیا ہے۔ دوسری طرف  یہ خبریں بھی ہیں کہ حکومت کڑی شرائط کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پروگرام سے بھی نکلنا چاہتی تھی۔

اس مقصد کے لیے سعودی عرب سے مزید رقم لینے کا ارادہ تھا لیکن سعودی عرب نے مزید پیسہ دینے کے بجائے اپنا پرانا قرض واپس مانگ لیا  جس پر معاملات میں بگاڑ آیا۔ سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ  سعودی عرب کی جانب سے پاکستان پر یمن میں  فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لئے دباؤ بڑھ رہا تھا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ کی سابق آرمی چیف راحیل شریف ،جنرل جہانگیر کرامت سمیت دیگر سابق فوجی رہنماوں سے ملاقات انتہائی غیرمعمولی ہے اور کسی بڑی تبدیلی کا پتہ دیتی ہے۔ انکا خیال ہے کہ مستقبل میں کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے جس کیلئے  یہ مشاورت ہوئی ہے۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ بھارت کی جانب سے مستقبل میں کسی قسم کی ممکنہ چھیڑخانی  کے تناظر میں یہ ملاقات ہے تو بعض اسے پاکستان ا ور سعودی عرب کے درمیان حالیہ تناؤ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور جنرل راحیل شریف سعودی عرب میں اتحادی فوج کے رہنما بھی ہیں اس لئے اسے اہمیت دی جا رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دنیا میں ایک نیا بلاک وجود میں آرہا ہے جس میں چین، روس، ترکی،وسط ایشائی ریاستیں، پاکستان، ایران، بنگلہ دیش شامل ہونگے اور اس بلاک میں پاکستان کو غیر معمولی جیو پولیٹیکل اہمیت حاصل ہو گی۔ حال ہی میں پاکستان اور بنگلا دیش کے وزیراعظم کے درمیان بھی رابطہ ہوا جو بہت حیران کُن اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

چین کے لیے پاکستان کا سیاسی استحکام بہت اہم ہے، اسی لیے پاکستان میں ایک ایسا نظام نافذ ہوگا جسے ایک پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر کنٹرول کرے گی۔ پاکستان کی جیو پولیٹکل حیثیت چین کے مستقبل کی سپر پاور بننے کے لیے ناگزیر ہے۔ دوسری طرف جو بلاک ہے وہ امریکہ، انڈیا اور سعودی عرب پر مشتمل  ہے۔ امریکہ اور چائنا تو اب کْھل کر آمنے سامنے آرہے ہیں۔ دنیا کو ایک بار پھر سرد جنگ کا سامنا ہے۔

مزید یہ کہ کورونا نے عالمی سطع پر اقتصادی تباہی پھیلا رکھی ہے اور اس سے بھی امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔ امریکہ میں کورونا کے باعث اقتصادئی صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں امریکہ میں ابھی دو دن قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا کے باعث بے روزگار ہونیوالے لوگوں کو چار ڈالر ہفتہ وار الاونس دینے کے حکم نامے پر دستخط کئے ہیں اور امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اعدادوشمار کے مطابق ایک ہفتے کے دوران بارہ لاکھ امریکیوں نے کورونا سے بے روزگار ہونے پر الاونس کے حصول کیلئے درخواستیں دی ہیں جبکہ اس سے پہلے دس لاکھ لوگوں نے درخواستیں دیں تھیں ان حالات میں سرد جنگ میں بھی تیزی آرہی ہے اور دونوں دھڑے اس صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ اس سرد جنگ میں پہلے کی طرح پاکستان امریکہ کے بجائے چین کے ساتھ کھڑا ہو گا۔

امریکہ اور چین کے درمیان بھی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے امریکا  کی جانب سے چین کے خلاف تازہ کارروائی میں تین چینی شہریوں کو گرفتار کرکے ان پر ویزا فراڈ اور چینی افواج کے ساتھ منسلک ہونے کے الزامات عائد کرنے سے اس سرد جنگ کو مزید ہوا ملی ہے  اور اب تک تین افراد امریکی حکام کی زیر حراست ہیں۔

ایف بی آئی چوتھے چینی باشندے کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی ہے، امریکی اداروں نے مزید 25 چینی افراد سے پوچھ گچھ بھی کی ہے، جن کے بارے میں شبہ ہے کہ ان کی چین کی مسلح افواج کے ساتھ غیر اعلانیہ وابستگی ہے۔ چینی شہریوں کے خلاف تازہ کارروائی اس وقت سامنے آئی جب چند روز قبل ہی امریکی وزیر دفاع کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ امریکا پورے ایشیا میں اپنی فورسز کو تیار کر رہا ہے اور ان کی از سر نو تعیناتی عمل میں لا رہا ہے تا کہ چین کے ساتھ ممکنہ مقابلے کے لیے تیار ہوا جا سکے۔

ادھر چین کے ساتھ کشیدگی کے دوران امریکا اور بھارتی بحریہ کی مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی گئی ہیں، یہ مشق جزیرہ انڈیمان اور نکوبار کے قریب کی گئیں جہاں بھارتی بحریہ کا مشرقی بیڑہ پہلے سے ہی تعینات ہے کیونکہ ا امریکہ، روس کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اب چین کو اپنا نیا حریف سمجھتا ہے، اس لئے امریکہ کی جانب سے چین کے خلاف اکثر ایسی کارروائیاں سامنے آتی رہتی ہیں جن کو چین اشتعال انگیز قرار دیتا ہے۔

پاکستان کی بنگلہ دیش کے حوالے سے بھی اہم پیشرفت سامنے آئی ہے وزیراعظم عمران خان کے بنگلہ دیش کی رہنما حسینہ واجد کے ساتھ ہونیوالے رابطے کے بعد سے بھارتی حلقوں میں بھی بے چینی بڑھ رہی ہے اور اس بوکھلاہٹ میں بھارت پھر سے اوچھی حرکتوں پر اُتر  آیا ہے۔ ایل او سی پر کشیدگی میں کمی نہیں آ رہی۔ دفاعی و سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کے پاکستان اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط پر بھارت جھنجلاہٹ کا شکار  ہے کیونکہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے گزشتہ 4 ماہ سے  بھارتی ہائی کمشنر کی درخواستوں کے باوجود ملاقات نہیں کی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ  2019  سے شیخ حسینہ کے دوبارہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں بھارتی منصوبوں کی رفتار سست پڑ گئی ہے جبکہ چینی منصوبے توجہ حاصل کر رہے ہیں اور بھارتی تشویش کے باوجود بنگلہ دیش نے سلہٹ میں ایئرپورٹ ٹرمینل کی تعمیر کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دے دیا ہے۔

سلہٹ کی سرحد بھارت کے شمال مشرقی علاقے سے ملتی ہے، جو نئی دہلی کے لیے حساس علاقہ ہے۔ چین نے ایران کے ساتھ بھی سی پیک کے حوالے سے چار سو ارب ڈالر کے معاہدے کئے ہیں جس سے عالمی سطع پر سفارتی لحاظ سے پاکستان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگی اوراسکے یقینی طور پر ہماری ملکی معیشت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہونگے ۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔