کیا ہم زندہ قوم ہیں؟

خطیب احمد  جمعرات 13 اگست 2020
اس قوم نے کبھی جمہہوریت کا سکھ بھی نہیں پایا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس قوم نے کبھی جمہہوریت کا سکھ بھی نہیں پایا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا ہم زندہ قوم ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں سوچیں تو ہماری روح کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ کیونکہ ہم نے اس وطن کی زمین کو اپنے خون سے غسل دے کر قربانیوں کا امین بنایا تھا۔ جبکہ ہمارے دشمنوں نے ہمارے ہی خون سے جشن غسل صحت منایا تھا۔ ہم اندھیروں کے سیاہ بادل چھٹنے پر خوش تھے، اس امید کے ساتھ کہ آئندہ سویرا بھی ہمارے لیے روشن اور خوش حال ہوگا۔

ہمارے پاس محمد علی جناح کی قیادت تھی، امنگوں کا دریا رواں تھا، جذبوں کی کیاری میں خوابوں کے بیچ ڈالے جارہے تھے، تاکہ ہم زندہ قوم بن کر پھوٹنے والی کونپلوں کو مستقبل کا معمار بناسکیں۔ لیکن ہمارا دم پھر ٹوٹ گیا۔ کیونکہ ہم اپنی کونپلوں کو سنوارنے کےلیے دوسروں کا انتظار کرتے رہے۔

پھر قائد کی آنکھیں بند ہوگئیں، خواب چکنا چور ہوگٰئے۔ نفرتوں کا لاوا بہنے لگا۔ تعصب کی بھڑکتی ہوئی آگ نے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کردیا۔ جب بھی ہم کہتے رہے کہ ہم زندہ قوم ہیں، لیکن ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی چمن کو راکھ کردیا۔

لیکن جب قوم میں تھوڑی سانسیں پھر بھی باقی تھیں۔ اس قوم کو پاکستان اور مادر ملت فاطمہ جناح سے وفا کی خاطر اس کے ماتھے پر غدار لکھ کر بوٹوں تلے تو کبھی بیوروکریسی کے جوتوں تلے روندا گیا۔ بے دردی سے لوٹا گیا۔ یہ قوم پھر بھی دکھ سہتی رہی، اس قوم نے جمہہوریت کا سکھ بھی نہیں پایا۔ ہر مرتبہ تقریری تماشے دیکھتی رہی اور ہر تقریر’’میرے ہم وطنو‘‘، ’’آپ نے گھبرانا نہیں‘‘ سے لے کر ’’پاکستان پائندہ باد‘‘ پر ختم ہوتی۔ لیکن قوم ہر بار اس پر اعتبار کرلیتی، اس قوم کو کیا معلوم پھر اسے لوٹا جائے گا۔

پھر یہ قوم شاید ہی زندہ رہی ہو۔ کیونکہ جس قوم کو جناح نے غلامی کی بیڑیوں سے آزاد کروایا تھا، اس قوم نے ان محبت کے دعوؤں کو فراموش کردیا۔ آج وہی قوم ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا رہی ہے۔ اس زمین کی آغوش میں پلنے والا ہر انسان ایک دوسرے کو لوٹ کھسوٹ رہا ہے۔ لیکن دنیا میں سربلند کرنے کی باری آئی تو ہم نے فخر کے بجائے مایوسی سے اعتراف کیا ’’ہاں ہم پاکستانی ہیں‘‘۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے ہر رونما ہونے والا واقعہ ہماری قوم کو مردہ کرتا گیا۔ ہزاروں پاکستانیوں کی نعشوں کا لہو اس کی زمین میں جذب ہوتا گیا۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا، غربت، بے روزگاری اور دہشت گردی نے اس قوم کو اپنے جال میں دبوچ لیا۔ لیکن ان حالات کا یہ قوم کیسے مقابلہ کرتی؟ یہ تو متحد ہی نہیں رہی بلکہ ہم تو ناہموار حالات میں کسی خونخوار جانور کی طرح ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن چکے تھے۔ یہ قوم اس درد کو بھی بھول گئی، جو بھوک و افلاس کی وجہ سے لوگ خودکشی کررہے ہیں۔ آہستہ آہستہ اس قوم کا ضمیر سوگیا اور ہم کثیف معاشرے میں تبدیل ہوگئے۔

اب تو بس طبقاتی نظام میں منقسم غریب اور اشرافیہ میں امتیاز کی جاسکتی ہے کہ غریب غربت کے مارے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ اب بس یوں لگتا ہے کہ چند سانسیں بچ گئی ہیں۔ لیکن کاش ہم زندہ ہوتے تو یوں ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ نہ ڈالتے۔ بلکہ متحد ہوکر اس کڑی آزمائش کا مقابلہ کرتے۔ آخر کب تک ایک دوسرے کو غدار، ملک دشمن کافر اور واجب القتل کی سند تقسیم کرتے رہیں گے۔

لیکن ہم تلخ حقیقت سے ہمیشہ آنکھیں چرا کر چھپنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ذرا ایک بار خود سے یہ سوال ضرور پوچھئے، اگر یہ زمین ہی نہ رہی تو کدھر جائیں گے؟ کیا ہم زندہ قوم ہیں؟ بس دعا ہے کہ ہم بدل جائیں اور سدھر جائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

خطیب احمد

خطیب احمد

بلاگر طالب علم ہیں، صحافت اور اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں، سماجی مسائل پر باقاعدگی سے لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ فنِ خطابت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔