پٹرولیم کمپنیوں کے شیئرز بیچنے میں 50 ارب نقصان کا خدشہ

مانیٹرنگ ڈیسک  اتوار 13 ستمبر 2020
شہباز رانا، کامران یوسف، رحیم اللہ یوسفزئی،محمد زبیر کی دی ریویو میں گفتگو۔ فوٹو : فائل

شہباز رانا، کامران یوسف، رحیم اللہ یوسفزئی،محمد زبیر کی دی ریویو میں گفتگو۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: نجکاری کمیشن بورڈ کی منظوری کے بعد پیٹرولیم کمپنیوں کے شیئر فروخت کرنے کی صورت میں 50 ارب روپے کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام’’ دی ریویو‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شہباز رانا  نے بتایا کہ جو جلد بازی حکومت دکھانے جا رہی ہے اس سے لگتاہے کہ ایک اور اسکینڈل بننے جا رہاہے، اس میں50ارب کانقصان ہونے کاخدشہ ہے اور وہ بھی اس کیس میں جہاں منافع بخش ادارے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس میں کہانی یہ ہے کہ نجکاری کمیشن کے بورڈنے29 جولائی کوفیصلہ کیا کہ پاکستان پٹرولیم لیمیٹدکے دس فیصد شیئرز اوراو جی ڈی سی ایل کے سات فیصد شیئرز بیچے جائیں یہ فیصلہ اس کے باوجود ہوا کہ پٹرولیم ڈویژن کی سفارشات یہ ہیں کہ عالمی حالات کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی نہیں ہے اس لیے آپ بھی یہ شیئرز نہ بیچیں بلکہ بعد میں جب عالمی مارکیٹ بہتر ہو تو تب یہ اس صورت میں یہ شیئرز بیچے جائیں، اگر قیمت بہتر ملے۔

عمران خان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے او جی ڈی سی ایل کے شیئر کی قیمت جمعے کو ایک سو نو روپے ہے اس پر اگرحکومت سات فیصد شیئر بیچے گی تواسے33ارب ملیں گے لیکن(ن)لیگ کی حکومت میں 2014 میں 216میں اس کاشیئر نہیں بیچا گیا، آج حکومت اسے آدھی قیمت پر بیچنے کیلیے تیارہے، پی پی ایل کے 5 فیصد شیئر کی قیمت اس وقت219روپے تھی جنھیں فروخت کرکے15.4ارب حاصل کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ آج شیئر کی قیمت سو روپے ہے اور اس وقت حکومت نے پانچ فیصد شیئر بیچ کر پندرہ ارب چالیس کروڑ روپے حاصل کیے تھے لیکن آج حکومت دس فیصد شیئر بیچ کرصرف پندرہ ارب روپے حاصل کرپائے گی، اگرحکومت انہیں بیچتی ہے تو 50 ارب کانقصان  ہوگا۔

نجکاری کمیشن کے سابق چیئرمین مسلم لیگ(ن)کے رہنما محمد زبیرنے کہاکہ ہم شیئر بالکل نہیں بیچ سکے تھے 2014کی بات ہے جب ہم نے او جی ڈی سی ایل کے شیئر بیچنے کی کوشش کی اور فنانس رایڈوایزر ہائربھی کرلیے تھے لیکن اس وقت مارکیٹ گر رہی تھی روڈ شوز ہوتے ہیںجس میں آپ فکس کرتے ہیں اورسب سے بڑا لندن میں ہوتاہے جب ہم نے روڈ شوز کیاتو پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ سے سٹے لے لیا ظاہرہے کہ ہم اسٹے آرڈرکے بعد انہیں نہیں بیچ سکتے تھے پہلے یہ پی آئی اے کاہوٹل بیچنے جا رہے تھے پتہ نہیںہے کہ پی ٹی آئی کو ،مافع بخش قومی اثاثے بیچنے کی اتنی جلدی کیوں ہے۔

افغان امن مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ  آج19سال کے بعد اس کانتیجہ یہ نکلاہے کہ 19سال جنگ لڑی گئی، اربوں ڈالرکانقصان ہوا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں لیکن آخر کار سب فریقین کومذاکرات کی میز پر بیٹھناپڑا، ابھی افغان امن کا پروسس اسٹارٹ ہواہے، اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں امریکا میں الیکشن بھی ہیں توان کی کوشش ہے کہ اس کونومبر سے پہلے کنکلوڈکر لیں، وہ کنلوڈ توشاید نہ ہوں لیکن اس سے خطے میں امن بھی آئے گا اور شاید ہم اپنا دفاعی بجٹ بھی کم کر سکیں،

کامران یوسف نے کہا کہ آج تاریخی دن ہے کہ  بہت التواکے بعد آج دوحہ میں انٹراافغان ڈائیلاگ کا آغاز ہوا ہے جس کی آج اوپننگ سرمنی ہوئی ہے، یہ تعین کرے گا کہ کیاافغانستان میںمستقل امن قائم ہو سکتا ہے، ہمارے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بذریعہ وڈیو لنک اس میں شرکت کی اور ایک وے فار ورڈ دیا۔

افغان امورکے ماہر سینئرصحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے کہاکہ طالبان نے طاقت کے زور پر اپنے آپ کو منوایاہے انھو ںنے19 سال امریکا سے جنگ کی ہے، ظاہر ہے بات چیت کامطلب ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو ہے ،طالبان نے سمجھ لیاہے کہ انہیںجنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگامذاکرات سے ہی آپ سیاسی فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔