اسٹین لیس اسٹیل 1,000 سال پہلے ایرانیوں نے ایجاد کیا تھا، تحقیق

ویب ڈیسک  جمعـء 25 ستمبر 2020
قدیم ایران میں اسٹین لیس اسٹیل سے زرہ بکتر، تلواریں اور خنجر بنائے جاتے تھے۔ (تصویر: راحیل علی پور)

قدیم ایران میں اسٹین لیس اسٹیل سے زرہ بکتر، تلواریں اور خنجر بنائے جاتے تھے۔ (تصویر: راحیل علی پور)

تہران: آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ دورِ جدید میں استعمال ہونے والے ’’اسٹین لیس اسٹیل‘‘ کی اوّلین شکل آج سے تقریبا ایک ہزار سال پہلے ’’چاہک‘‘ شہر میں ایجاد کی گئی تھی جو موجودہ ایران میں واقع ہے۔

تحقیقی مجلّے ’’جرنل آف آرکیالوجیکل سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں ایرانی نژاد برطانوی ماہر راحیل علی پور اور ان کے ساتھیوں کی اس دریافت کے بارے میں تفصیلات شائع ہوئی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اسٹین لیس اسٹیل کی ابتدائی شکل، جسے ’’کروسیبل اسٹیل‘‘ بھی کہا جاتا ہے، قدیم ایران میں زرہ بکتر، تلواریں اور خنجر بنانے میں استعمال ہوتی تھی۔

چاہک موجودہ ایران کا ایک چھوٹا سا غیرمعروف قصبہ ہے لیکن گیارہویں صدی عیسوی میں، یعنی آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے یہ ایک صنعتی شہر ہوا کرتا تھا جو بطورِ خاص فولادی اور دھاتی صنعت کا مرکز بھی تھا۔

واضح رہے کہ جدید اسٹین لیس اسٹیل کی تیاری میں فولاد اور لوہے میں کرومیم کی معمولی مقدار کے علاوہ دیگر معدنیات بھی شامل کی جاتی ہیں۔ یہ فولاد کی ایسی قسم ہے جسے زنگ نہیں لگتا؛ اور اسی بناء پر یہ گزشتہ دو سو سال سے مختلف صنعتی اور گھریلو مصنوعات میں بکثرت استعمال ہورہا ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن کے ایرانی نژاد ماہرِ آثارِ قدیمہ راحیل علی پور نے اسے ترقی یافتہ قدیم ایران کا ثبوت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دنیا میں ’’کروسیبل اسٹیل‘‘ (اسٹین لیس اسٹیل کی ابتدائی شکل) کی اوّلین شہادت بھی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاید اسٹین لیس اسٹیل بنانے کی تکنیک، تاریخ کے کسی لمحے پر گم ہوگئی تھی جسے انیسویں صدی عیسوی میں اہلِ یورپ نے ایک بار پھر دریافت کرلیا۔

اگر قدیم ایران میں اسٹین لیس اسٹیل کی ایجاد کو مسلمانوں کے بنائے ہوئے ایک اور فولاد یعنی ’’فولادِ دمشق‘‘ (ڈیماسکس اسٹیل) کے ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً ماضی کی مسلم تہذیب میں فولاد سازی پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔