44 بھارتی بینک 1 ارب ڈالر کی غیرقانونی منتقلی میں ملوث ہیں، امریکی ادارے کا انکشاف

ویب ڈیسک  ہفتہ 26 ستمبر 2020 Read in English Version
سرکاری بینکس بھی شامل، بینکوں نے 2 ہزار سے زائد مشکوک ٹرانزیکشنز کے ذریعے ایک ارب ڈالر کی مشکوک ٹرانزیکشنز کیں (فوٹو : انٹرنیٹ)

سرکاری بینکس بھی شامل، بینکوں نے 2 ہزار سے زائد مشکوک ٹرانزیکشنز کے ذریعے ایک ارب ڈالر کی مشکوک ٹرانزیکشنز کیں (فوٹو : انٹرنیٹ)

 نیویارک: امریکی ادارے نے بھارت کے 44 سرکاری اور نجی بینکوں کو مشکوک لین دین میں ملوث قرار دے دیا جنہوں نے 2 ہزار سے زائد ٹرانزیکشن کے ذریعے ایک ارب ڈالر سے زائد رقم غیرقانونی طریقے سے منتقل کی۔

بھارتی میڈیا نے امریکی ادارے کی اس رپورٹ کی تصدیق کی ہے۔ خود بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے اس حوالے سے خبر شائع کی ہے جس کے مطابق مالیاتی جرائم پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے فنانشیل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک نے بھارت کے 44 سرکاری اور نجی بینکوں کی دو ہزار سے زائد مشکوک ٹرانزیکشن کی نشاندہی کی ہے جو کہ سال 2011ء سے 2017ء کے دوران کی گئیں۔ ان ٹرانزیکشن کے ذریعے ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کی رقم منتقل کی گئی۔

بینکوں کی اس فہرست میں کئی سرکاری بینک بھی شامل ہیں جن میں 290 ٹرانزیکشنز کے ساتھ سرفہرست پنجاب نیشنل بینک، 102 ٹرانزیکشن کے ساتھ اسٹیٹ بینک آف انڈیا، 93 ٹرانزکشن بینک آف بڑودا، 99 ٹرانزیکشن یونین بینک آف انڈیا اور 190 کنارا بینک بھی شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سرکاری اور نجی بینکوں کے ساتھ ساتھ بھارت میں موجود غیرملکی بینکوں کی برانچز بھی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث نکلیں جنہیں فنڈز وصول کرنے یا بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بھارت میں موجود ان غیرملکی بینکوں میں ڈچ بینک ٹرسٹ کمپنی امریکا، بی این وائی میلن، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ، جے پی مورگن اور دیگر بینکوں کی برانچز شامل ہیں۔

امریکن واچ ڈاگ کی اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ بینکنگ ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے گیٹ وے کے ذریعے مشکوک لین دین کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ایک طرف بھارت میں قائم بینکوں کی برانچوں کو بیرون ممالک سے رقم بھارت آنے یا بھارت سے باہر بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا اور دوسری طرف ہندوستانی بینکوں کی دیگر ممالک میں قائم شاخیں بھی اس مشکوک لین دین میں شامل نکلیں جن میں کینیڈا میں موجود اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا اکاؤنٹ اور برطانیہ میں موجود یونین بینک انڈیا کا اکاؤنٹ شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔