- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
حجاب فقط خود کو ڈھانپنے کا نام نہیں!
’حجاب‘ ہمارے مذہب کا عطا کردہ ایک معیار عزت و عظمت ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ ایک عورت کا فخر بھی ہے اور وقار بھی۔۔۔ یہ ایک مسلمان عورت کی پہچان اور اس کے مضبوطی کردار کی علامت بھی ہے۔
جب ہم ایک خاتون کے حجاب کی بات کر تے ہیں،کہ یہ ایک عورت کے تحفظ اور حفاظت کا ذریعہ ہے، تو پھر ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو صرف ڈیڑھ گز کے کپڑے تک محدود نہ کریں، بلکہ یہ ’حجاب‘ ہماری روزمرہ گفتگو کا مظہر بھی ہو اور ہمارے ہر عمل کا ایک خاکہ بھی۔۔۔ یہ معاشرے میں ایک خاتون کی حدود کے تعین کے ساتھ اسے یہ بھی شعور دیتا ہے کہ کس طرح وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہے، وہ کن جگہوں پر، کس طرح اپنا کردار بہ حسن وخوبی نبھا سکتی ہے۔ سماج میں کون سی راہ اس کے لیے پروقار اور اس کے شایان شان ہے اور کون سا راستہ اس کے لیے بہتر نہیں، اور سماج کی کس اچھائی اور برائی کو وہ اپنے کردار سے بھی کافی حد تک روک سکتی ہے۔
اس کا عمل صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ آگے منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ باحجاب عورت دوسری خواتین کے لیے رول ماڈل ہوتی ہے، اس کے خیالات، سوچ، اس کی زبان سے نکلے الفاظ، اس کے افعال اس کی تعلیم کے عکاس ہیں۔
عورت حجاب کسی جبر، ظلم یا قید کی علامت سمجھ کر نہیں کرتی، بلکہ وہ اسے ایک ڈھال کی طرح سمجھتی ہے، حجاب اپنے آپ میں اس کی آزادی و حفاظت کا استعارہ ہے۔ میرے خیال میں ہمیں حجاب کے سلسلے میں اپنی سوچ کے دائرے اور خیالات کے کینوس کو تھوڑا سا وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلم معاشرے میں حجاب صرف عورت کی پہچان اور اس کے وقار کو نمایاں کرتا ہے۔
عام طور پر حجاب کا تصور آتے ہی ایک باپردہ خاتون ذہن کے پردے پر ابھر تی ہے، جو کہ اپنی جگہ درست اور صحیح ہے، لیکن معاشرہ صرف عورت سے ہی تو نہیں بنتا…؟ ایک معاشرے میں مردوزن دونوں کی ہی جگہ برابر اور مستحکم ہونا چاہیے اور ان دونوں کی موجودگی ہی متوازن معاشرے کو پروان چڑھاتی ہے۔ جس طرح عورت ومرد کی مثال گاڑی کے دو پہیوں سے دی جاتی ہے کہ دونوں کی نہ صرف موجودگی ضروری ہے، بلکہ توازن بھی برقرار رہے گا، تبھی گاڑی ٹھیک طرح اپنی منزل کی طرف رواں رہے گی۔
اسی طرح باحیا، پاکیزہ، بلند اقدار اور تہذیب یافتہ معاشرے کو بھی وہی افراد با اخلاق اور باوقار بنا سکتے ہیں، جس کی دونوں اصناف سیرت و کردار میں اعلیٰ ہوں، اگر مسلم معاشرے کی عورت تو باحیا ہو، لیکن دوسری طرف مرد مختلف قسم کی برائیوں میں ملوث ہوں، تو وہ معاشرہ کیسے اپنا معیار برقرار رکھ سکے گا؟ دینی، سماجی و اخلاقی اقدار ایک مرد سے بھی حیا داری کی طالب ہیں۔
محفوظ معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں دونوں کا متوازی کردار ہی معاون ثابت ہوگا۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی ذہنی آلودگی، غیر انسانی واقعات، دفاتر، فیکٹریوں اور دیگر اداروں میں خواتین کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک، حد تو یہ کہ تعلیمی اداروں میں طالبات کے ساتھ نامناسب رویے جو بڑھتے بڑھتے طالبات کو اقدام خودکشی تک لے جا رہے ہیں۔
اس کی وجوہات میں صرف خواتین کی بے حجابی نہیں، بلکہ مرد حضرات کے کردار کے وہ جھول، کمزوریاں اور اخلاقی پستی بھی ہے ، جس کے سبب وہ کسی بھی حد کو پار کرنے میں، کوئی عار نہیں محسوس کرتے۔ آئے روز سامنے آنے والے شرم ناک واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ ہمارے شہروں میں بھی خواتین کے لیے صورت حال محفوظ نہیں رہی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ حیا و حجاب کو صرف عورت کے خود کو ڈھانپنے کا نام دینے کے بہ جائے، اس ’حجاب‘ کے اصل مفہوم کو مرد وزن میں خوب اچھی طرح عام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہمارے سماجی رویے بہتر ہوں۔ گھروں میں رہنے والی اور گھروں سے نکلنے والی خواتین اور بچیاں کسی کی بری نظر سے بھی محفوظ رہ سکیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔