الٹے ہاتھ سے لکھنے والوں میں41 جین سرگرم ہوسکتے ہیں

ویب ڈیسک  بدھ 30 ستمبر 2020
17 لاکھ افراد کے جینیاتی تجزئیے کے بعد 41 ایسے جین دریافت ہوئے ہیں جو کسی شخو کو بائیں ہاتھ والا بناسکتےہیں۔ فوٹو: فائل

17 لاکھ افراد کے جینیاتی تجزئیے کے بعد 41 ایسے جین دریافت ہوئے ہیں جو کسی شخو کو بائیں ہاتھ والا بناسکتےہیں۔ فوٹو: فائل

آسٹریلیا: طبی سائنس کی شاندار کامیابی کے باوجود اب تک ہم یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ اکثریت سیدھے ہاتھ سے کام کیوں کرتی ہے؟ بعض افراد بائیں ہتھے کیوں ہوتے ہیں اور بہت ہی کم دونوں ہاتھوں سے تحریر کیوں لکھ سکتے ہیں؟

اب ماہرین نے اس سوال کا جواب پانے کے لیے 17 لاکھ افراد کا مطالعہ کیا ہے اور ان میں نوٹ کیا کہ 41 جین ایسے ہیں جو شاید لوگوں کو دائیں اور بالخصوص بائیں ہاتھ سے کام کرنے والا بناتے ہیں۔

ماہرین نے دماغی سرگرمی کے ساتھ ساتھ لاکھوں افراد کے جین کا مطالعہ کرکے دائیں یا بائیں ’غالب‘ ہاتھ کی جینیاتی وجوہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تحقیق سے وابستہ ماہرِ جینیات ڈاکٹر سارہ میڈلِن کہتی ہیں کہ دائیں یا بائیں ہاتھ سے لکھنے کا عمل دماغی ساخت پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔

’ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ 41 ایسی جینیاتی تبدیلیاں ہیں جو کسی کو دائیں ہتھہ بناسکتی ہیں جبکہ دیگر سات جین ملے ہیں جو بہ یک وقت دائیں اور بائیں ہتھے والا بناتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہ تمام جین کا اس کیفیت میں صرف 12 فیصد کردار ہی ادا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ دائیں یا بائیں ہاتھ والوں میں دیگر بہت سے عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں اور ہم اس کے بارے میں اب تک نہیں جانتے۔

یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ کے ماہرِ جینیات ڈیوڈ ایونس کہتے ہیں کہ شاید ماحولیاتی عوامل بھی اس میں ایک اہم کردار ادار کرتے ہیں۔ ان میں کسی چوٹ کا لگنا، کھیل، لکھائی یا میوزک آلہ بجانے میں شروع سے ہی دایاں یا بایاں ہاتھ استعمال کرنے سے بھی رفتہ رفتہ بایاں ہاتھ زیادہ سرگرم ہوجاتا ہے۔

اس تجربے کے لیے برطانوی بایوبینک اور 23 اینڈ می جیسے اداروں سے ڈیٹا لیا گیا ہے جبکہ اس کی مکمل تفصیل نیچر ہیومن بیہیویئر میں شائع ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔