اب پروٹین اور خلیات کے درمیان چہل قدمی کرکے انہیں دیکھنا ممکن

ویب ڈیسک  جمعرات 15 اکتوبر 2020
سپرمائیکرواسکوپی اورورچول ریئلٹی سافٹ ویئر کی بدولت اب خلیات اور پروٹین کے اندر جھانکنا ممکن ہوچکا ہے۔ فوٹو: کیمبرج یونیورسٹی

سپرمائیکرواسکوپی اورورچول ریئلٹی سافٹ ویئر کی بدولت اب خلیات اور پروٹین کے اندر جھانکنا ممکن ہوچکا ہے۔ فوٹو: کیمبرج یونیورسٹی

کیمبرج: اب سائنسدانوں نے خلیات کو اتنا وسیع کردیا ہے کہ اس میں چہل قدمی کرکے خلیات اور پروٹٰین کا اندر سے نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

یہ پورا نظام کیمبرج یونیورسٹی اور ایک نجی کمپنی نے مل کر بنایا ہے۔ سافٹ ویئر کو وی لیوم کا کا نام دیا گیا ہے۔ تھری ڈی امیج پروسیسنگ کا پورا نظام لیوم وی آر کمپنی نے تیار کیا ہے۔ یہ دلچسپ نظام خردبین سے دیکھے گئے خلیات اور اجزا کو بڑھاتا ہے اور انہیں ورچول ریئلٹٰی میں لے جاتا ہے۔ جہاں کوئی بھی انفرادی پروٹین سے لے کر مختلف خلیات کے اندر کی تفصیل معلوم کرسکتا ہے۔ اس طرح حیاتیات کی بنیادی رازوں کو فاش کرنا ممکن ہوگا اور بیماریوں کے علاج کی راہ ہموار ہوگی۔

اس کے بعد ورچول یونیورسٹی نظام یا عینک لگا کر آپ ہر انفردی خلیے کا تفصیلی نظارہ کرسکتے ہیں۔ اس نظام میں سب سے اہم ’سپر ریزولوشن مائیکرواسکوپی‘ ہے جسے 2014 میں کیمیا کا نوبیل انعام مل چکا ہے۔ اس کی بدولت نینوپیمانے پر تصاویر لی جاسکتی ہے۔ اس کی بدولت سائنسداں سالماتی عمل کو سمجھ سکتےہیں۔ لیکن انہیں تفصیلی طور پر صورت گری (وزولائزیشن) کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔

یہ نظام تمام خلیات کو تھری ڈی (سہ جہتی) انداز میں ظاہر کرتا ہے اور صرف ایک کلک سےآپ مجازی طور پر خلیات کے اندر جاپہنچتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی میں سپر ریزولوشن مائیکرواسکوپی ، ڈیٹا تجزیہ کاری اور کمپیوٹنگ کو باہم ملایا گیا ہے۔ اب یوں سمجھئے کہ یہ ٹیکنالوجی یا تو انسان کو نینو پیمانے تک چھوٹا کردیتی ہے یا پھر خلیات کو انسانوں کے برابر بڑا کرکے ظاہر کرتی ہے۔

حیقیقی وقت میں مجازی خلیات کا نظارہ ہمیں حیاتیات کی ایک نئی دنیا سے روشناس کراسکتا ہے۔ اسطرح مزید دریافتوں کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں شامل ایک پی ایچ ڈی طالبہ انوشکا ہانڈا نے اپنے خون کے نمونے سے امنیاتی خلیات لیے اور انہیں مائیکرواسکوپی سے دیکھا۔ اس کے بعد اس نے خود اپنے ہی امنیاتی خلیات میں داخل ہوکر اس کا نظارہ کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔