اپوزیشن کے جلسے اور حکومت کی ذمے داریاں

ضیا الرحمٰن ضیا  بدھ 21 اکتوبر 2020
عوام کی بڑی تعداد جلسوں میں موجود ہوتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عوام کی بڑی تعداد جلسوں میں موجود ہوتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ملک کے سیاسی درجۂ حرارت میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں جلسوں پر جلسے کر رہی ہیں، جو کہ اپوزیشن کرتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے جو تحریک شروع کی ہے وہ فی الحال تو کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور اس میں شامل تمام جماعتیں یک زبان ہوکر حکومت کے خلاف سرگرم ہیں اور عوامی طاقت کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجنے کےلیے پرعزم ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اچھے خاصے بڑے جلسے کررہی ہیں جن میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہورہے ہیں۔ پہلا جلسہ گوجرانوالہ میں کیا، جس میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اپوزیشن جماعتوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ دوسرا جلسہ انہوں نے کراچی میں کیا، وہاں بھی عوام کی اچھی خاصی تعداد نے جلسے میں شرکت کرکے اپنے رہنماؤں کی مزید حوصلہ افزائی کی۔ اب اپوزیشن جماعتیں مزید جلسے کرنے اور حکومت کے خلاف تحریک کو مزید تیز کرنے کےلیے پرجوش ہیں، جو حکومت کےلیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

اپوزیشن جماعتیں جلسوں میں کیا تقاریر کرتی ہیں یا میاں نواز شریف نے اداروں بالخصوص فوج کے خلاف کیا زبان استعمال کی؟ فی الوقت تو اس گفتگو کا موقع نہیں ہے، ابھی تو میں فوج کے ان جوانوں کےلیے غمزدہ ہوں جو چند روز قبل وزیرستان اور گوادر میں دہشتگردوں کی کارروائیوں میں جام شہادت نوش کرگئے اور یقیناً ہر پاکستانی اپنے ان جوانوں کےلیے فکرمند ہے جو دہشتگردوں کے خلاف محاذ پر ہیں۔ اللہ رب العزت ان کی حفاظت فرمائے۔ یہاں اس گفتگو کو میں زیادہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن تو جلسے کر رہی ہے اور حکومت پر تنقید بھی کر رہی ہے، جو کہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ ہمارے وزرا کو کس کام میں لگا رکھا ہے؟ وہ بس اپوزیشن کے جلسوں پر تبصرے کر رہے ہیں۔ کوئی تو ان کے اعداد و شمار جاری کر رہا ہے اور کوئی اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر کا پرچار کررہا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ کوئی شخص اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر نہیں سن سکتا یا ان کی طوالت کی وجہ سے سننا پسند نہیں کرتا تو وہ وفاقی وزرا کے بیانات سن لے، اپوزیشن رہنماؤں کی تمام تقاریر کا خلاصہ سمجھ میں آجائے گا۔ اپوزیشن رہنما جلسہ کرکے گھروں کو چلے جاتے ہیں، اس کے بعد دو چار روز تک وزرا اس پر بیانات دیتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ دوسرا جلسہ آجاتا ہے اور وزرا کو نیا کام مل جاتا ہے، وہ جلسوں کے بعد ان کے متعلق بیانات داغتے رہتے ہیں۔

حکومت کےلیے کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اپوزیشن کے جلسوں میں جو لوگ شریک ہورہے ہیں ان کے مسائل کیا ہیں؟ وہ ہماری جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں کیوں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں؟ کیونکہ عوام کی بڑی تعداد جلسوں میں موجود ہوتی ہے چاہے حکومت مانے یا نہ مانے۔ حکومت کی طرف سے جو تعداد بتائی جاتی ہے اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور اپوزیشن کی جانب سے جو تعداد بتائی جاتی ہے اصل تعداد اس سے کم ہوتی ہے۔ اس لیے اصل تعداد کو ان دونوں کے درمیان میں سمجھنا چاہیے۔ بہرحال ہزاروں لوگ اپوزیشن کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ لاتعداد افراد ایسے ہوتے ہیں جو جلسوں میں شرکت کرنے والوں کی طرح ستائے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی طرح کے نظریات رکھتے ہیں لیکن کسی وجہ سے جلسوں میں شرکت نہیں کرسکتے یا نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے شرکت کرنے والے افراد ان کی بھی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں۔ اگر اپوزیشن کے حالیہ جلسوں میں عوام کی شرکت کی وجہ جاننے کی کوشش کی جائے اور وہاں موجود افراد کی اکثریت مہنگائی کا رونا روتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ ہم مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں، اس لیے اس حکومت سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم صاحب اور وزرا تو انہیں اپوزیشن جماعتوں کے کارکن سمجھتے ہیں اور یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ انہیں لالچ دے کر یا بہکا کر یہاں لایا گیا ہے لیکن ان کی حالت زار دیکھیں تو وہ کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ یہ تمام افراد جیالے نہیں ہوتے، نہ ہی اپوزیشن جماعتیں انہیں نکلنے پر مجبور کرتی ہیں، بلکہ حکومت خود ہی انہیں نکلنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ اس طرح کہ حکومت کی غلط پالیسیاں جب ملک کے حالات خراب کرتی ہیں تو عوام تنگ ہوجاتے ہیں اور وہ حکومت کے خلاف نکلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان میں بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں حکمران جماعت کو ہی ووٹ دیے لیکن اب وہ حکومت کی نااہلیوں کو دیکھ کر اپنے کیے پر شرمسار ہیں اور حکومت سے چھٹکارا پانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔

یہاں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بنی ہی اپوزیشن کی زبانی مخالفت کےلیے ہے۔ بس ان کی حرکات پر نظر رکھو اور بیانات داغتے رہو، اس کے سوا کوئی اور کام نہیں کرنا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اب تو سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور عوام کے حال پر رحم کھا کر کوئی ذرا سی کارکردگی تو دکھا دے۔ اپوزیشن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنے سے ان کی نااہلی نہیں چھپے گی، بلکہ اپنے کام پر دھیان دیجئے، اپنے اپنے محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنائیے، عوام کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کیجئے، مہنگائی پر قابو پانے کےلیے موثر اقدامات کیجئے، بیروزگاری کے خاتمے کےلیے کام کیجئے، معیشت کو بہتر بنائیے۔ ان اقدامات سے آپ پر عوام کا اعتماد بڑھے گا اور وہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کے بجائے حکومت کا ساتھ دیں گے اور خودبخود اپوزیشن کی تمام تحاریک ختم ہوجائیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔