کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 25 اکتوبر 2020
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔فوٹو : فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔فوٹو : فائل

غزل


طلسمِ خواب سے آخر نکلنا ہوتا ہے
نباہ سب کو حقائق سے کرنا ہوتا ہے
جہان ایک سرائے ہے، شب گزاری کا
کرایہ کر کے ادا آگے چلنا ہوتا ہے
چھپانا ہوتا ہے یہ راز عشق کا سب سے
کہ لمحہ لمحہ خموشی سے مرنا ہوتا ہے
ہزار عیب پہ حاوی ہے زندگی کا وصف
کہ گھائو جتنا بھی گہرا ہو بھرنا ہوتا ہے
اسی لیے تو گماں خود پہ آئنے کاہُوا
ہمارے سامنے ا س کو سنورنا ہوتا ہے
ٹھہر ٹھہر کے نہیں بے سبب تو بولتا وہ
جواز ڈھونڈنا اور جھوٹ گھڑنا ہوتا ہے
ہر ایک سمت ہیں جاذب ؔ سبھی تماشائی
سو گرنے والے کو خود ہی سنبھلنا ہوتا ہے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء ُالدین)


غزل


دریا کے لیے باعثِ آزار ہوئی ہے
جو آگ سی لہروں سے نمودار ہوئی ہے
اے باغ میں مُرجھائے ہوئے نیم کِھلے دن
اک شام ترے دکھ میں عزادار ہوئی ہے
صحرائے لق و دق میں پڑی مشکِ دریدہ
اک پیاس ترے بعد علم دار ہوئی ہے
نکلا ہوں ہتھیلی پہ دیا جب سے اُٹھا کر
یہ دنیا مرے سر کی طلب گار ہوئی ہے
آیت کی طرح خواب میں آئے ہوئے چہرے
یہ آنکھ تجھے چھو کے گنہ گار ہوئی ہے
لپٹے رہے گھڑیال سے منہ زور اندھیرے
یہ رات بڑی دیر میں مسمار ہوئی ہے
(میثم علی آغا۔ اٹلی)


غزل


سب جانتی ہوں کرب ہے جو انتظار میں
گزرے ہیں ماہ و سال ہی لمبی قطار میں
خاموش رہ کے ظلم کی حامی نہ بن سکی
شامل ہوں کم سے کم کسی چیخ و پکار میں
ہم آخری گلاب ہیں دنیا کی شاخ پر
ترسیں گے ہم کو لوگ یہ اگلی بہار میں
گھنٹوں کی فون کال میں وہ لطف ہی کہاں
جو خامشی میں لطف ہے، جو اختصار میں
ہم کھو گئے تو ڈھونڈ تے پھرتے رہو گے تم
لاکھوں میں مل سکیں گے نہ ہم سے ہزار میں
قربت کی انتہا پہ ہے اک شخص دور سے
ڈھلتی ہے شامِ ہجر بھی اس کے حصار میں
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)


غزل


وہ گفتگو کے سلیقے ابھی کہاں مرے دوست
ابھی ابھی تو ملی ہے مجھے زباں مرے دوست
وقوع دیکھیے میرا کہ درد کا طوفان
کسی بھی سمت سے آئے مَیں درمیاں مرے دوست
کل اس سے آگے سفر کرنا ہے خلا میں جہاں
لگا کے آج میں لوٹا ہوں اک نشاں مرے دوست
میں اپنی طرز کا بس ایک ہی مفید میاں
میں اپنی طرز کا بس ایک رائیگاں مرے دوست
ٹکور کیجیے اس پر ہوا کی ایک دو روز
گھٹن نے چوٹ لگائی جہاں جہاں مرے دوست
عجیب اس سے تعلق کہ ہے بھی اور نہیں بھی
ابھی یقیں مرے ہم دَم، ابھی گماں مرے دوست
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)


غزل


جسم سے رہ گزر بناتے ہیں
آ، محبت کو شر بناتے ہیں
خود کو بار ِدگر بناتے ہیں
اور اب سوچ کر بناتے ہیں
آج لکڑی کے جوڑ کر تختے
ڈوب جانے کا ڈر بناتے ہیں
جن کے پاؤں وہ کاٹ لیتے ہیں
ان کے جسموں پہ سر بناتے ہیں
یہ لٹیرے ہی میرے محسن ہیں
بند گلیوں میں در بناتے ہیں
اب صباحتؔ خدا بنے ہیں وہ
اب وہ شمس و قمر بناتے ہیں
(صباحت عروج ۔ڈیرہ غازی خان)


غزل


نئی زبان ملی ہے سو ایسا بولتے ہیں
شروع میں تو سبھی الٹا سیدھا بولتے ہیں
خدا کرے کہ کبھی بات بھی نہ کر پائیں
یہ جتنے لوگ تیرے آگے اونچا بولتے ہیں
اسے کہا تھا کہ لوگوں سے گفتگو نہ کرے
اب اس کے شہر کے سب لوگ میٹھا بولتے ہیں
کسی سے بولنا باقاعدہ نہیں سیکھا
بس ایک روز یونہی خود سے سوچا، بولتے ہیں
نکل کے شور سے آئی تھی اک درخت تلے
مگر یہاں تو پرندے بھی کتنا بولتے ہیں
ہم ایسے لوگ کوئی بات دل میں رکھتے نہیں
کسی سے کوئی گلہ ہو تو سیدھا بولتے ہیں
(امن شہزادی۔ حافظ آباد)


غزل


یوں ہی نہیں کہ آئے ہیں اشعار مختلف
لایا ہوں میں ردیف بھی اِس بار مختلف
موسم کی ساری سختیاں سہتی ہے اس لیے
لگتی ہے گھر کی باہری دیوار مختلف
بنتے رہیں گے باہمی ٹکراؤ کا سبب
جن کی ہے اک مدار میں رفتار مختلف
کیسے رہے محیط وہ اک دائرے تلک
رکھے جو روز نقطۂ پرکار مختلف
باقی تمام لفظ پرانے سُروں میں ہیں
بس ایک اُس کے نام کی جھنکار مختلف
(فرحان عارِض۔ فیصل آباد)


غزل


وہ بدلتا نظر نہیں آتا
دل بہلتا نظر نہیں آتا
زلف رخ سے نہیں ہٹائے تو
دن نکلتا نظر نہیںآتا
وقت نے ایسے روک رکھا ہے
کوئی چلتا نظر نہیں آتا
تجھ سے وابستہ دل ہوا ہے یوں
اب سنبھلتا نظر نہیں آتا
غم کا سورج کہ اپنے سر سے بھی
اب کے ڈھلتا نظر نہیں آتا
دیپ میری امید کا اخترؔ
وہ بھی جلتا نظر نہیں آتا
(اختر سعید۔جھنگ)


غزل


پھیلے ہوئے ہیں چار سُو خدشات مختلف
ان دوریوں نے کر دیے حالات مختلف
ملتی نہیں ہے دِید کی خیرات صبح شام
جب در کُشادگی کے ہوں اوقات مختلف
ایسا لگا تھا ہونے لگے راستے جدا
ہر ایک ان کی ہو گئی تھی بات مختلف
ہارا ہوں تیرے نام پہ، ہوں مطمئن بہت
لگتی نہیں ہے جیت سے یہ مات مختلف
دیکھے لہو میں سال کئی ڈوبتے مگر
امسال آ پڑیں کئی آفات مختلف
بے چارگی ہے، کرب ہے، اطراف میں خلیلؔ
تجھ سے ہیں خیر میرے مضافات مختلف
(خلیل حسین بلوچ۔کراچی)


غزل


چبھے ہاتھوں میں آتے خار بیلی
چھوا جو پھول کو اک بار، بیلی
خزاں نے اس طرح نوچا شجر کو
ملی نہ پھر اسے مہکار، بیلی
وہ آگ اب میرے گھر تک آ گئی ہے
لگی تھی جو پسِ دیوار بیلی
نہ جا اب چھوڑ کر دل مضطرب کو
کروں گا کس کا میں دیدار بیلی
سنا ہے ڈھونڈتے ہو تم بھی گل کو
یہ دل اپنا بھی تو گل زار بیلی
گلے ملتے ہیں سب مطلب سے عارفؔ
نہیں پہلے سے اب وہ یار بیلی
(محمد حسین عارف۔جھنگ)


غزل
مسکراہٹ اصول کر لیجے
مشورہ ہے قبول کر لیجے
کیجیے یاد ایک بار مجھے
آج بھولے سے بھول کر لیجے
کچھ اداسی کی لاج رکھیے نا
خود کو یونہی ملول کر لیجے
کہکشاں کا کوئی ستارہ ہوں
آپ قدموں کی دھول کر لیجے
دل نے بھیجا ہے پیار کا تحفہ
ان لبوں سے وصول کر لیجے
کوئی آیا ہے غزلیں سننے کو
اپنے شعروں کو پھول کر لیجے
(ناہید اختر بلوچ۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان)


غزل


حق گوئی پہ لوگوں کواٹکتا ہوا دیکھا
حتّٰی کہ ہدایت سے بھٹکتا ہوا دیکھا
گرتے ہی جسے تھامنے سو ہاتھ لپکتے
کل ٹوٹ کے خود اس کو سمٹتا ہوا دیکھا
آزردہ دلوں کا جو اڑاتے ہیں تمسخر
آنکھوں سے لہو ان کی ٹپکتا ہوا دیکھا
تنویر جب آتا ہے تیرا نام غزل میں
نظروں کو نظارہ یہ کھٹکتا ہوا دیکھا
(تنویر شاہ الہاشمی۔ فیصل آباد)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔