ناکارہ جگر کی اہم وجوہ کے انکشاف سے علاج میں پیشرفت ممکن

ویب ڈیسک  جمعـء 30 اکتوبر 2020
جگرکے تین خلیات اور آنتوں کو خردنامیوں کے سگنل کو روک کر جگر کے فیل ہونے کے عمل کو ٹالا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

جگرکے تین خلیات اور آنتوں کو خردنامیوں کے سگنل کو روک کر جگر کے فیل ہونے کے عمل کو ٹالا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

اسرائیل: ماہرین نے خلیاتی (سیلیولر) سطح پر مکمل طور پر جگر کی ناکارگی (اکیوٹ لیور فیلیئر) کا راز دریافت کیا ہے اور اسی عمل کو روک کر مریضوں کو موت کے منہ سے بچایا جاسکتا ہے۔

جگرفیل ہونے کا مرض تیزی سے بدترین ہوجاتا ہے اور 80 فیصد کیفیات کا نتیجہ موت پر نکلتا ہے۔  خود مغربی ممالک میں بھی یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور بسا اوقات پیراسیٹامول کے بے تحاشہ استعمال سے جگر اس حالت تک پہنچتا ہے۔

اب وائزمان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کےپروفیسر ایران ایلی نیف اور آئیڈوامیت نے چوہوں میں دیکھا کہ جگر میں تین ذیلی اقسام کے خلیات ایک ساتھ مل کر جگر کو فیل یا ناکارہ بناتے ہیں۔ اس عمل میں آنتوں کے بیکٹیریا خود بیمار خلیات بھی سگنل بھیجتے ہیں۔ اب ہم اس عمل کو سمجھتے ہوئے اگر سگنل کو روک سکیں یا آنتوں کے مخصوص خردنامیوں کو ختم کرسکیں تو اس سے موت کو ٹالا جاسکتا ہے اور مریضوں کو کچھ وقت مل سکتا ہے۔

ماہرین اس عمل میں مرض سے پہلے اور بعد میں چوہے کے جگر کے خلیات دیکھے اور خود انسانی مریضوں کے خلیات بھی نوٹ کئے۔ ان دونوں کے درمیان حیرت انگیز یکسانیت دیکھی گئی۔ پھر ماہرین نے جگر کی ناکارگی میں مبتلا چوہوں میں مخصوص سگنل روکے تو ان کی طبیعیت بہتر ہوئی اور جگر کی صورتحال بھی بہتر ہونا شروع ہوگئی۔

تاہم جگر کے بہت سے خلیات میں سے جگر فیل کرنے والے خلیات کی نشاندہی بہت مشکل کام تھا۔ پہلے چوہوں کے جگر کا تمام خلیات کا پورا نقشہ بنایا گیا اور بالخصوص جگر کے عارضےاور ناکارگی کو نوٹ کیا گیا۔ اس طرح خلیات کے 49 ذیلی اقسام سامنے آئی اور آخرکار تین اقسام کے خلیات پر نظر آکر ٹھہری۔ یہ خلیات بہت سی رطوبتیں بھی خارج کرتے ہیں۔

دوسری جانب سائنسدانوں نے آنتوں سے آنے والے سگنل کا راستہ (پاتھ وے) بھی معلوم کیا اور پھر چن چن کر ان خردنامیوں کو ختم کیا جو ایسے سگنل خارج کررہے تھے۔ اس کے فوراً بعد ہی جگر کے بیمار چوہے بہتر ہوگئے اور وہ باقی ماندہ چوہوں کے مقابلے میں زیادہ عرصے زندہ رہے۔

آج نہیں تو کل یہ طریقہ انسانوں پر آزما کر جگر کی فوری ناکارگی کو ٹالا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔