کاربن ڈائی آکسائیڈ اور بارش کے پانی سے ’اصلی ہیروں‘ کی تیاری

ویب ڈیسک  پير 2 نومبر 2020
یہ ہیرے اپنی تمام خصوصیات کے اعتبار سے بالکل اصل ہیروں کی مانند ہوتے ہیں جنہیں نقلی ہیرے نہیں کہا جاسکتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ ہیرے اپنی تمام خصوصیات کے اعتبار سے بالکل اصل ہیروں کی مانند ہوتے ہیں جنہیں نقلی ہیرے نہیں کہا جاسکتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لندن: برطانیہ کی ایک ماحول دوست کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ہوا کی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور بارش کا پانی آپس میں ملا کر اصلی ہیرے بنانے شروع کردیئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ’’ایکوٹریسیٹی‘‘ نامی یہ کمپنی برطانیہ کے ماہرِ ماحولیات اور ارب پتی صنعتکار ڈیل ونسی کی ہے۔ اس کمپنی نے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے ملاپ سے ہیرے بنانے کی یہ ٹیکنالوجی بین الاقوامی سطح پر 2015 میں پیٹنٹ کروا لی تھی، تاہم ان ہیروں کی محدود پیداوار حال ہی میں شروع کی گئی ہے۔

ڈیل ونسی کا کہنا ہے کہ ہیروں کی کان کنی کا روایتی عمل بہت زیادہ آلودگی پیدا کرتا ہے: صرف ایک قیراط (یعنی 0.2 گرام) ہیرے کی کان کنی میں 22 لاکھ پاؤنڈ چٹانیں توڑنا پڑتی ہیں، 1,028 گیلن پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ 238 پاؤنڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔

2019 کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اس سال دنیا بھر میں 142 ملین (14 کروڑ 20 لاکھ) قیراط کے ہیرے نکالے گئے تھے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف ہیروں کی کان کنی میں تقریباً 34 ارب پاؤنڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کی گئی تھی، جو بلا شبہ بہت بڑی مقدار ہے۔

ایکوٹریسیٹی کی ٹیکنالوجی اس سے بالکل اُلٹ ہے: ایک طرف تو اس میں آلودگی کا باعث بننے والی فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑی مقدار میں جذب کی جاتی ہے، تو دوسری جانب صرف وہی پانی استعمال کیا جاتا ہے جو بارش میں برستا ہے اور جسے ایک جگہ ذخیرہ کرلیا جاتا ہے۔

آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں بھی بہت مدد ملتی ہے۔

اس طرح تیار ہونے والے ہیرے بالکل اصلی ہیروں جیسے ہی ہوتے ہیں جو اپنی ظاہری شکل و صورت کے علاوہ طبیعی (فزیکل) اور کیمیائی (کیمیکل) خصوصیات کے اعتبار سے بھی اصل ہیرے کی مانند ہی ہوتے ہیں۔ یعنی انہیں کسی طور پر بھی ’نقلی ہیرے‘ نہیں کہا جاسکتا۔

اگرچہ ڈیل ونسی نے اس ٹیکنالوجی کی تفصیل تو نہیں بتائی لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہوا کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے بعد اسے پانی میں ملایا جاتا ہے اور ایک خاص مرحلے سے گزار کر اس آمیزے کو میتھین گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ ہیروں کی تیاری میں یہی میتھین گیس ایک اہم جزو کا درجہ رکھتی ہے۔

ایکوٹریسیٹی اب تک 200 قیراط ہیرے ماہانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرچکی ہے جس میں بتدریج اضافہ کیا جارہا ہے۔

یہ ہیرے اب تک فروخت کےلیے پیش نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی ان کی قیمت کے بارے میں کچھ پتا چل سکا ہے، تاہم خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ ایکوٹریسیٹی سے ہیروں کی فروخت کا آغاز اگلے سال یعنی 2021 کی پہلی سہ ماہی میں کردیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ہیرا دراصل ’’کاربن‘‘ ہی کی ایک بہروپی شکل ہے۔ کاربن کی دوسری بہروپی شکلوں میں کوئلہ اور پنسلوں میں عام استعمال ہونے والا گریفائٹ زیادہ مشہور ہیں جبکہ جدید دور میں اپنی زبردست خصوصیات کے باعث مقبول ہونے والی ’’گریفین‘‘ بھی کاربن ہی کی ایک اور بہروپی شکل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔