- پی ٹی آئی حکومت نے دہشتگردوں کو واپس ملک میں آباد کیا، وفاقی وزیر قانون
- وزیر داخلہ کا کچے کے علاقے میں مشترکہ آپریشن کرنے کا فیصلہ
- فلسطین کواقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کا وقت آ گیا ہے، پاکستان
- مصباح الحق نے غیرملکی کوچز کی حمایت کردی
- پنجاب؛ کسانوں سے گندم سستی خرید کر گوداموں میں ذخیرہ کیے جانے کا انکشاف
- اسموگ تدارک کیس: ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات لاہور، ڈپٹی ڈائریکٹر شیخوپورہ کو فوری تبدیل کرنیکا حکم
- سابق آسٹریلوی کرکٹر امریکی ٹیم کو ہیڈکوچ مقرر
- ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج
- راولپنڈٰی میں بیک وقت 6 بچوں کی پیدائش
- سعودی معاون وزیر دفاع کی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو
- پختونخوا؛ دریاؤں میں سیلابی صورتحال، مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو الرٹ جاری
- بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز،21 ریاستوں میں ووٹنگ
- پاکستانی مصنوعات خریدیں، معیشت کو مستحکم بنائیں
- تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں، اسرائیل ایران پر براہ راست حملے کی ہمت نہیں کریگا، ایکسپریس فورم
- اصحابِ صُفّہ
- شجر کاری تحفظ انسانیت کی ضمانت
- پہلا ٹی20؛ بابراعظم، شاہین کی ایک دوسرے سے گلے ملنے کی ویڈیو وائرل
- اسرائیل کا ایران پرفضائی حملہ، اصفہان میں 3 ڈرون تباہ کردئیے گئے
- نظامِ شمسی میں موجود پوشیدہ سیارے کے متعلق مزید شواہد دریافت
- اہم کامیابی کے بعد سائنس دان بلڈ کینسر کے علاج کے لیے پُرامید
زحل اور یورینس کے درمیان ایک ’’برفیلا سیارہ‘‘ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن...
پیساڈینا، کیلیفورنیا: ماہرینِ فلکیات نے دریافت کیا ہے کہ آج سے تقریباً ساڑھے چار ارب سال پہلے، جب ہمارا نظامِ شمسی اور اس میں موجود تمام سیارے اپنی تخلیق کے ابتدائی مرحلے پر تھے، تب زحل اور یورینس کے درمیان ایک برفیلا سیارہ بھی تھا لیکن جلد ہی وہ ہمارے نظامِ شمسی سے فرار ہو کر دور خلاؤں میں کہیں گم ہوگیا۔
یہ دریافت امریکا کے ’’کارنیگی انسٹی ٹیوشن فار سائنس‘‘ میں ماہرین کی ایک ٹیم نے کی ہے جس کی قیادت سینئر فلکیات داں میٹ کلیمنٹ کررہے تھے۔ اس دریافت کی تفصیلات خلائی تحقیق کے معروف جریدے ’’اکارس‘‘ (Icarus) کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
آج ہمارا نظامِ شمسی مجموعی طور پر خاصا پرسکون ہے جہاں ہر سیارہ اپنے لگے بندھے مدار میں سورج کے گرد گھوم رہا ہے۔ لیکن ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ نظامِ شمسی کے ابتدائی دنوں میں، جب یہ تمام سیارے بھی گیس کی شدید گرم پلیٹوں کی شکل میں تھے، حالات بہت مختلف تھے۔
مثلاً یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نظامِ شمسی کے بالکل ابتدائی زمانے میں مشتری کا سورج سے فاصلہ آج کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ تھا۔ لیکن یہ بتدریج قریب ہوتے ہوتے اپنے موجودہ مدار میں پہنچ کر مستحکم ہوگیا۔
آج ہمارے پاس ایسے کئی مفروضات اور تصورات موجود ہیں جو نظامِ شمسی کی ابتداء و ارتقاء کی وضاحت کرتے ہیں۔
کلیمنٹ کہتے ہیں کہ اب تک، دوسرے ہزاروں ستاروں کے گرد گھومتے ہوئے سیاروں کا مشاہدہ کرنے کے بعد، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارا نظامِ شمسی بہت مختلف اور منفرد ہے۔ (شاید اس جیسا کوئی اور نظامِ شمسی ہماری پوری کہکشاں میں کہیں بھی نہ ہو!)
اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ ہمارے نظامِ شمسی کا ارتقاء بھی کچھ غیرمعمولی مراحل میں ہوا ہے۔
انہیں سمجھنے کےلیے کلیمنٹ اور ان کے ساتھیوں نے نظامِ شمسی کی ابتداء اور ارتقاء کے بارے میں 6,000 سے زائد کمپیوٹر سمیولیشنز چلائیں جو اُس دور کی مطابقت میں تھیں جب ہمارا نظامِ شمسی بالکل نیا نیا وجود میں آیا تھا، اور جب سورج کے گرد سیارے بھی گرم گیسی پلیٹوں (پلینٹری ڈسکس) کی شکل میں تھے۔ یعنی ہمارا نظامِ شمسی ابھی اپنی تشکیل کے عمل سے گزر رہا تھا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ابتداء میں ہمارے نظامِ شمسی کے تمام سیارے خاصے قریب اور بالکل گول مداروں میں چکر لگا رہے تھے، جو بتدریج نہ صرف اپنے موجودہ مداروں میں پہنچ گئے بلکہ ان کے مدار بھی بیضوی شکل میں آگئے، جیسا کہ آج ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔
ان سمیولیشنز سے اگرچہ نظامِ شمسی کے ابتدائی دور سے متعلق کچھ باتوں کی تصدیق ہوئی لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک اہم انکشاف بھی ہوا۔
اگر یہ سمیولیشنز واقعی درست ہیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آج سے اربوں سال پہلے زحل اور یورینس کے درمیان ایک ایسا بڑا سیارہ بھی موجود تھا جس کا بیشتر حصہ برف پر مشتمل تھا۔ لیکن اگلے چند کروڑ سال کے دوران، نظامِ شمسی کے دوسرے سیاروں کی کشش نے اس کا مدار اتنا زیادہ متاثر کردیا کہ بالآخر وہ یہاں سے فرار ہوکر دور خلا میں کہیں گم ہوگیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔