- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے انکار کردیا تو کیا ہوگا؟
واشنگٹن: ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کو انتخابات میں مطلوبہ اکثریت حاصل ہونے کے بعد امریکا کی صدارت سے متعلق بے یقینی کا تو خاتمہ ہوگیا ہے تاہم اب بھی ایک سوال خدشے کی صورت میں امریکی سیاست اور آئین کے ماہرین کے دل میں کھٹک رہا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے انکار کردیا تو کیا ہوگا؟
تین نومبر کو صدارتی انتخابات کے دن ہی موجودہ صدر ٹرمپ اپنی فتح کا اعلان کرچکے تھے اور اس کے بعد ان کی جانب سے مسلسل انتخابات میں دھاندلی کے الزمات سامنے آتے رہے جن کا وہ کوئی ثبوت بھی فراہم نہیں کرسکے۔ یہاں تک کے جو بائیڈن کی واضح برتری کے بعد بھی ٹرمپ نے بھاری اکثریت سے جیتنے کا دعویٰ کیا اور ٹوئٹر نے 38 ویں بار ان کی پوسٹ کو ’’غیر مصدقہ معلومات پر مبنی‘‘ کے انتباہ سے داغ دیا۔
ٹرمپ اس سے قبل بھی انتخابی نتائج اپنے حق میں نہ ہونے کی صورت میں نتائج سے خبردار کرتے آئے ہیں اور ایک موقعے پر تو باقاعدہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ اگر انہیں شکست ہوئی تو اقتدار کی منتقلی آسانی سے نہیں ہوگی۔
صدر ٹرمپ کے اسی رویے کو دیکھتے ہوئے انتخابات سے قبل ہی سیاسی مبصرین میں یہ سوال زیر بحث آچکا تھا کہ اگر ٹرمپ نے سبک دوشی یا انتقال اقتدار سے انکار کردیا تو کیا ہوگا؟
اس سوال نے اس لیے بھی اہمیت حاصل کرلی کہ ایک جانب ٹرمپ کا مزاج ہے اور دوسری طرف امریکی آئین اس حوالے سے کوئی راہ نمائی فراہم کرتا ہے اور نہ ہی ماضی میں اس کی کوئی نظیر ملتی ہے۔
اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ نے اپنا منصب چھوڑنے سے انکار کردیا تو اس کا آئینی حل تلاش کرنے سے بھی بڑھ کر تشویش ناک بات یہ ہے کہ دو صدیوں کی روایات رکھنے والے اس منصب کی جگ ہنسائی ہوگی۔
اس کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ آئین میں ایسی صور ت حال کا باضابطہ کوئی حل تو موجود نہیں تاہم اس کے لیے قانون کی کچھ تاویلیں کام آسکتی ہیں جس کے مطابق جیسے ہی جو بائیڈن صدارت کا حلف اٹھائیں گے وہ سربراہ مملکت بن جائیں گے اور سبھی کو ان کے احکامات ماننے ہوں گے اور اس کے بعد کسی کا صرف وائٹ ہاؤس میں رکے رہنا اسے کوئی اختیار نہیں دے گا؟
وائٹ ہاؤس کے دو سابق حکام نے امریکی جریدے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر بدترین نوبت آگئی تو وائٹ ہاؤس میں ڈیرہ جمائے کسی غیر منتخب شخص کی حیثیت گھس پیٹیے جیسی ہوگی جسے نکال باہر کرنے کے لیے خفیہ اداروں کی ایک چھوٹی سی کارروائی ہی کافی ہوگی۔
دوسری جانب ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو انتقال اقتدار پر آمادہ کرنے میں سب سے اہم کردار ایوان نمائندگان میں ان کے جماعت کے نمائندے ادا کرسکتے ہیں اور صدر کر وائٹ ہاؤس سے نکلنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
ٹرمپ کی جانب سے یہ اقدام کرنے کا کتنا امکان ہے یا نہیں اس حوالےسے ابھی تک خدشات ہی پائے جاتے ہیں تاہم وہ ایسا کر گزرے تو کیا ہوگا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا کوئی متفقہ جواب نہیں۔ ایسا اس لیے بھی نہیں ہوپارہا ہے کہ اس سے پہلے ایسی صورت حال بھی کبھی پیش نہیں آئی ہے۔ اور ٹرمپ کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے امریکی اہل سیاست کو دھڑکا یہی لگا ہے کہ کہیں وہ بہت سی دیگر باتوں کی طرح اس معاملے بھی پہل کرنے کی نہ ٹھان لیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔