- سابق وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس گرفتار
- کرغزستان میں پھنسے طلبا سے متعلق تشویش ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- کرغزستان سے مزید ساڑھے تین سو طلبا وطن واپس پہنچ گئے
- اینٹی بائیوٹک ادویات کے بے تحاشہ استعمال سے پاکستان میں سالانہ 7 لاکھ اموت
- اسحٰق ڈار کا سعودی ہم منصب سے رابطہ، محمد بن سلمان کے دورے کی تیاریوں کا جائزہ
- ہیٹ ویو کا خدشہ؛ سندھ میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کی تاریخ آگے بڑھا دی گئی
- فالج کی تشخیص کے لیے نیا ٹیسٹ وضع
- آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیز مسافر طیارے پر کام جاری
- والدین نے بشکیک سے طلبا کو مفت لانے کے حکومتی دعوؤں کو جھوٹا قرار دے دیا
- ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے
- دنیا کا سب سے چھوٹا فنگر فِش سینڈویچ
- غیرملکی کمپنی پاکستان میں لائٹ ویٹ طیاروں کی مینوفیکچرنگ پر آمادہ
- ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم گرم اور خشک رہنے کی پیشگوئی
- مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے 2 اہلکار جھیل میں ڈوب کر ہلاک
- ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار، تلاش جاری
- ایوان صدر کا کرغزستان میں پاکستانی سفیر سے رابطہ، طلبا کی حفاظت کیلیے اقدامات کی ہدایت
- اسرائیل کی جنگی کابینہ کے اہم رکن کی مستعفی ہونے کی دھمکی
- کراچی: پولیس اہلکار شارٹ ٹرم اغوا برائے تاوان میں ملوث نکلے
- امتحانات آن لائن لیے جائیں گے، طلبا اپنے وطن واپس جاسکتے ہیں، کرغز وزارت تعلیم کا اعلامیہ
- راولپنڈی پولیس پر حملوں میں ملوث دہشت گرد ٹانک میں ہلاک
خردبینی سوئیوں والی پٹی سے ملیریا کی 20 منٹ میں تشخیص
ہیوسٹن، ٹیکساس: رائس یونیورسٹی کے انجینئروں نے ایک انتہائی باریک اور چھوٹی چھوٹی سوئیوں والی ایک ایسی پٹی (بینڈیج) ایجاد کرلی ہے جو صرف بیس منٹ میں ملیریا کا پتا لگا سکتی ہے، جبکہ اس کےلیے متاثرہ فرد کے جسم سے خون نکالنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
اگرچہ اس وقت بھی ملیریا کے تیز رفتار تشخیصی ٹیسٹ موجود ہیں جو 2 سے 15 منٹ میں نتیجہ دے دیتے ہیں مگر ان سب میں متاثرہ فرد کے جسم سے خون نکال کر خاص طرح کے بڑے اور مہنگے آلات سے جانچنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ ٹیسٹ خاصے مہنگے بھی ہوتے ہیں۔
ان دونوں مشکلات کی وجہ سے یہ ٹیسٹ اُن دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں ممکن نہیں جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات تک کا فقدان ہے۔
رائس یونیورسٹی میں مکینیکل انجینئرنگ کی پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچ فیلو ژوئی جیانگ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر پیٹر بی للیہوج نے ’’خردبینی سوئیوں‘‘ والی یہ تشخیصی پٹی ایجاد کی ہے۔
دیکھنے میں یہ زخم پر چپکانے والی عام پٹی جیسی ہے لیکن اس میں خاص طرح کی 16 عدد باریک باریک سوئیاں یعنی ’’مائیکرو نیڈلز‘‘ نصب ہیں جن میں سے ہر سوئی صرف 375 مائیکرومیٹر چوڑی ہے۔
جب اس پٹی کو کھال پر چپکایا جاتا ہے تو یہ سوئیاں جلد میں معمولی سی دھنس کر، جلد میں موجود مائع کی بہت معمولی مقدار اپنے اندر جذب کرلیتی ہیں۔ سوئیوں کی پشت پر ایک چھوٹی سی ’’ٹیسٹ چپ‘‘ اس مائع کا تجزیہ کرتی ہے اور اس میں ملیریا سے تعلق رکھنے والی اینٹی باڈیز کی موجودگی یا عدم موجودگی کا پتا لگاتی ہیں۔
ملیریا اینٹی باڈیز موجود ہونے کی صورت میں یہ پٹی اپنا رنگ بدل لیتی ہے اور یوں ڈاکٹر کو پتا چل جاتا ہے کہ مریض کو واقعی ملیریا ہے یا نہیں۔
ڈاکٹر ژوئی اور پیٹر کا کہنا ہے کہ اس تشخیصی پٹی کو ان دونوں نے خود پر آزمایا ہے اور انہیں معمولی سی چبھن کے احساس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا۔
ملیریا کی یہ تشخیصی پٹی ’’بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ کی فنڈنگ سے ایجاد کی گئی ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر پیٹر کہتے ہیں کہ اگرچہ ’’ہم نے اسے ملیریا کی تشخیص کےلیے تیار کیا ہے لیکن معمولی ترمیم کے ساتھ یہی ٹیکنالوجی دوسری بیماریوں کی تشخیص میں بھی استعمال کی جاسکے گی کیونکہ کھال کے نیچے موجود جسمانی مائع میں کئی امراض کی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔‘‘
انہیں امید ہے کہ اگر یہ پٹی بڑے پیمانے پر تیار کی جائے تو اس کی لاگت صرف ایک ڈالر یا اس سے بھی کم رہ جائے گی۔
اس ایجاد کی تفصیلات ’’نیچر پبلشنگ گروپ‘‘ کے تحقیقی جریدے ’’مائیکرو سسٹمز اینڈ نینو انجینئرنگ‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔