نیا چارٹر آف ڈیموکریسی اور سیاسی منظر نامہ

مزمل سہروردی  منگل 10 نومبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پی ڈی ایم کی جانب سے ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی پر بات شروع ہو گئی ہے۔ یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتیں 13نومبر تک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کے لیے اپنی سفارشات دیں گی اور 14نومبر کو سربراہی اجلاس میں ان سفارشات کو حتمی شکل دی جائے گی۔

نیا چارٹر آف ڈیموکریسی اس وقت ن لیگ کی ضرورت ہے۔ نواز شریف کی ضرورت ہے۔ یہ پیپلزپارٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ بلاول کے بی بی سی کے انٹرویو کے بعد پیپلزپارٹی کو پی ڈیم ایم میں باندھنے اور ہر قسم کے اختلاف کو ختم کرنے کے لیے نواز شریف کی جانب سے نیا چارٹر آف ڈیموکریسی ایک سیاسی چال ہے تا کہ پیپلزپارٹی کو مزید باندھا جا سکے۔

اس وقت ایک پی ڈی ایم کا سیاسی احاطہ کیا جائے تو اس میں شامل اکثریتی جماعتیں نواز شریف کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔  ایک عمومی رائے یہی بن رہی ہے کہ اگر کسی لمحہ پر مولانا فضل الرحمٰن کو پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں سے کسی ایک کا چناؤ کرنا پڑ گیا تو وہ ن لیگ کا چناؤ کریں گے۔

اسی طرح اے این پی اور بلوچ قوم پرست جماعتیں بھی ن لیگ کے ساتھ ہیں۔ ان کی بھی پہلی ترجیح ن لیگ ہی ہو گی۔ پی ڈی ایم میں شامل چھوٹی دینی جماعتیں بھی پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ن لیگ کے ساتھ جانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ وہ بھی ن لیگ کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اس تناظر میں پی ڈی ایم کے اندر پیپلزپارٹی کے پاس اختلاف کے لیے بہت محدود مواقع ہیں۔ کہیں نہ کہیں  پیپلزپارٹی کو یہ احساس ہے کہ وہ پی ڈی ایم میں ایک حد سے آگے سیاسی طور پر تنہا ہے۔

اس لیے سیاسی تنہائی سے بچنے کے لیے پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم کے اندر کئی کڑوی گولیاں کھانا ہونگی۔ کیونکہ اب پیپلزپارٹی کے لیے الگ ہونا بھی سیاسی طور پر موزوں نہیں ہے۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پی ڈی ایم پیپلزپارٹی کے لیے سیاسی طور پر ایسی کڑوی گولی بن گئی ہے جسے نہ وہ کھا سکتی ہے اور نہ ہی پھینک سکتی ہے۔

پی ڈی ایم کی کامیابی کی ایک بنیادی وجہ عمران خان کی سیاسی تنہائی بھی ہے۔ ایک طرف حکومتی اتحاد میں دراڑیں نظر آرہی ہیں۔ ق لیگ کے بدلے رنگ۔ مینگل کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کے تیور بھی بدل رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم میں اختلاف کے لیے بے چین ہیں۔

لیکن ساتھ ساتھ حکومتی اتحاد میں اختلافات بھی خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ عمران خان نے حکومتی اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے ایک ظہرانہ کا اہتمام کیا ۔ لیکن شاید یہ کافی نہیں اور انھوں نے یہ قدم اٹھانے میں بہت دیر کر دی ۔ عمران خان کی سیاسی تنہائی پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو طاقت بخش رہی ہے۔

اگر حکومتی اتحاد سے ایک آدھی جماعت اور نکل جاتی ہے تو عمران خان کے لیے اپنے اقتدار کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ نیا چارٹر آف ڈیموکریسی کیا ہوگا۔ کیا ہونا چاہیے۔ اس کے خدوخال کیا ہونگے۔ اس کی زبان کیا ہوگی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پہلا چارٹر آف ڈیموکریسی بے شک دو جماعتوں کے درمیان تھا۔ لیکن پھر بھی یہ ایک کامیاب چارٹر آف ڈیموکریسی تھا۔ اس کے ملکی سیاست پر مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

لیکن کیا نیا چارٹر آف ڈیموکریسی بھی اتنا کامیاب ہو سکتا ہے جتنا پرانا کامیاب ہوا ہے۔ کیا نئے چارٹر آف ڈیموکریسی سے بھی ویسے دباؤ بڑھے گا جیسے پہلے والے سے بڑھا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیا چارٹر آف ڈیموکریسی پہلے سے زیادہ کامیاب ہو جائے گا۔ اس وقت جو جماعتیں پی ڈی ایم میں شامل نہیں ہیں لیکن حکومتی اتحاد میں بھی نہیں ہیں وہ بھی کل اس نئے چارٹر آف ڈیموکریسی میں شامل ہو سکتی ہیں۔ نیا چارٹر آف ڈیموکریسی آگے چل کر ایک متفقہ دستاویز کی بھی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

ایسے میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کو روکنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ اس کو روکنا عمران خان اور اسٹبلشمنٹ دونوں کے مفاد میں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے۔ کیا عمران خان نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کو روکنے کی قیمت ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ایک طرف عمران خان اور ان کی ٹیم پیپلزپارٹی کے پی ڈی ایم سے الگ ہونے کی دعائیں مانگ رہی ہیں۔ اختلاف کی ہر خبر کو تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف عمران خان اور ان کی ٹیم پیپلز پارٹی کو ساتھ ملانے کے لیے سیاسی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے پیپلزپارٹی کے پاس بھی اس نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کے ساتھ جانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔

نئے چارٹر آف ڈیموکریسی میں نیب کے خلاف بات ہو گی۔ لیکن یہ پی ڈی ایم کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیب کو ختم کرنے کی بات کرنا سیاسی طور پر درست نہیں ہوگی۔ شفاف احتساب کی بات کرنی چاہیے ۔ ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت کو روکنے کی بات ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ٹھوس اقدامات کی تجویز ہی اس نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کو کامیاب بنا سکتی ہے۔

انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے اقدامات بھی اس نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کو کامیاب  بنا سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیا چارٹر آف ڈیموکریسی کہیں نہ کہیں نواز شریف کے بیانیہ اور سوچ کے قریب ہوگا۔ اس سے حکومت اور ادارے دفاعی پوزیشن میں آئیں گے۔ پی ڈی ایم کے اندر سوچ کا اختلاف نظر آرہا ہے۔ لیکن اس میں بیانیہ کا اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے نئے چارٹر آف ڈیموکریسی میں الفاظ کے چناؤ پر اختلاف تو ممکن ہے لیکن شائد اس کے بنیادی خدو خال پر اتفاق ہو چکا ہے۔

نیا چارٹر آف ڈیموکریسی کے مقابلے میں حکومتی اتحاد کیا کوئی اپنا چارٹر لا سکتا ہے۔ مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ عمران خان کے حکومتی اتحاد میں اس وقت اتنی جان نہیں ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے چارٹر کے مقابلے میں اپنا چارٹر لا سکے۔ کیا عمران خان اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ اس چارٹر کا سیاسی طور پر مقابلہ کر سکیں۔

مجھے نہیں لگتا۔ عمران خان کی سولو فلائٹ اس چارٹر کو زندگی اور طاقت بخشے گی۔ کہیں نہ کہیں حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ انھیں اس نئی بدلتی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی بدلنا ہوگی۔ ورنہ نقصان ہوگا۔ یہ نقصان صرف عمران خان کا نہیں ہوگا بلکہ اداروں کا بھی نقصان ہوگا۔

اگر عمران خان اس سیاسی تنہائی کو دور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو کم از کم اداروں کو ایسے اقدامات کرنا ہونگے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ سیز فائر وقت کی ضرورت ہے۔ گفتگو وقت کی ضرورت ہے۔ محاذ آرائی کا ملک کو نقصان ہو گا۔ نیا چارٹر آف ڈیموکریسی محاذ آرائی کو بڑھائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔