عمران خان اور جہانگیر ترین میں دوریاں ختم ہو سکتی ہیں ؟

رضوان آصف  بدھ 11 نومبر 2020
جہانگیر ترین نے وطن واپسی کر کے اپنے سیاسی مخالفین کو زناٹے دار طمانچہ رسید کیا ہے اور ان کی تمام چالیں الٹا دی ہیں۔فوٹو : فائل

جہانگیر ترین نے وطن واپسی کر کے اپنے سیاسی مخالفین کو زناٹے دار طمانچہ رسید کیا ہے اور ان کی تمام چالیں الٹا دی ہیں۔فوٹو : فائل

 لاہور: پاکستان کی سیاست میں آلودگی بڑھتی جا رہی ہے اور کبھی کبھی تو عام آدمی کا دم گھٹنے لگتا ہے، ایسے میں چند شخصیات ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند اپنی موجودگی کا احساس دلا تے ہوئے ملک کے تابناک مستقبل کی دم توڑتی امیدوں کو پھر سے توانا کر دیتی ہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں کی بات کریں تو عمران خان بھی ایسا ہی تازہ جھونکا بن کر تعفن زدہ سیاسی ماحول میں وارد ہوئے تھے۔ سیاست ایک کھیل کی مانند ہے لیکن اس کے اصول اور تقاضے کرکٹ کے کھیل سے یکسر مختلف ہیں اور شاید اسی وجہ سے عمران خان کرکٹ کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی ہونے کے باوجود اپریل 1996 سے لیکر اکتوبر2011 تک ملک کی بڑی سیاسی ٹیم کے طور پر تحریک انصاف کو متعارف کروانے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔

تحریک انصاف کے 24 سالہ سیاسی سفر کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔1996 سے 2011 تک پہلا سفر تھا جس میں عمران خان اپنی تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود ملکی سیاست میں خود کو تیسری آپشن کے طور پر متعارف نہیں کرا پائے تھے۔

اس دور کی تنظیمی سرگرمیوں بالخصوص عمران خان کی شرکت والے ایونٹس کی ویڈیوز اور تصاویر سے تحریک انصاف کی تنظیمی صورتحال اور سیاسی تنہائی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اکتوبر2011 سے جولائی 2018 ء تک کا دور تحریک انصاف کی مقبولیت اور سیاسی طاقت کے انتہائی عروج پر مبنی تھا۔ مینار پاکستان کے تاریخ ساز جلسے نے عمران خان کی صورت میں عوام کو تیسری آپشن فراہم کرنے کے علاوہ ان کی امیدوں کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا اور وہ کپتان سے ایک ایسے’’سپر اوور‘‘ کی توقع کرنے لگے تھے جس میں روایتی کھلاڑیوں کی وکٹیں اڑتی دیکھ سکیں۔

غیر معمولی عوامی توقعات کی تکمیل کیلئے سیاست کی راہ گزر پر چلتے ہوئے اقتدار کی منزل تک پہنچنا عمران خان کیلئے ایک بڑا چیلنج تھا اور اس کیلئے انہیں اپنی پارٹی کو حقیقی معنوں میں ملک گیر بڑی پارٹی بنانا تھا جس کیلئے وفادار،  سیاسی تجربہ کار اور وسائل رکھنے والے ساتھیوں کی ضرورت تھی۔یہی وقت تھا جب جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان، اسد عمر،شاہ محمود قریشی،شفقت محمود سمیت دیگر لوگوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی،مینار پاکستان کے جلسے کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت کا ’’سونامی‘‘ آگیا تھا لیکن بعد میں وقت نے ثابت کیا کہ کون عمران خان کے حقیقی دوست اور وفادار تھے اور کون سے ایسے تھے جو صرف’’درشنی‘‘ پہلوان ثابت ہوئے۔

تحریک انصاف آج تنظیمی اور سیاسی طور پر جس مقام پر موجود ہے اس میں شاہ محمود قریشی، عبدالعلیم خان، اسد قیصر، شاہ فرمان،چوہدری سرور کا بہت بڑا کردار ہے، عبدالعلیم خان نے لاہور سمیت سنٹرل پنجاب کیلئے بہت کام کیا ہے لیکن یہ کہا جائے کہ جہانگیر ترین کی محنت اور مشقت سب سے زیادہ اہم تھی توغلط نہیں ہوگا کیونکہ گزشتہ 10 برس میںثابت ہوا ہے کہ جہانگیر ترین نے عمران خان کے ساتھ ایسی دوستی اور وفاداری نبھائی ہے جس کی نظیر ملک کی سیاسی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔

جہانگیر ترین نے اپنی صحت اور کاروبار کو پس پشت ڈال کر دن رات محنت کے ساتھ تحریک انصاف کو ملک گیر منظم سیاسی جماعت بنانے میں کامیابی حاصل کی تو وہیں الیکشن جیتنے کیلئے موزوں امیدواروں کے انتخاب اور بعد از الیکشن کامیاب امیدواروں کی شمولیت کیلئے ’’ون مین آرمی‘‘ کے طور پر بھاگ دوڑ کی۔

2013 ء کے الیکشن سے قبل بھی جہانگیر ترین کا موقف تھا کہ مضبوط اور کامیاب امیدواروں کو شامل کیئے بغیر اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں لیکن اس وقت کچھ رہنماوں نے اس کی مخالفت کی، وقت نے ثابت کیا کہ ان میں سے کچھ نے ٹکٹوں کی ’’لوٹ سیل‘‘ لگا رکھی تھی اور وہ ترین فارمولہ اپنا کر عمران خان کو وزیرا عظم بنانے کی بجائے اپنا ’’خرچہ‘‘ بنانے کے چکر میں تھے۔2013 ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں حکومت ملی تو اسے کامیاب بنانے میں جہانگیر ترین نے مرکزی کردار ادا کیا۔

ڈی چوک دھرنے میں سنگین بیماری کے باوجود جہانگیر ترین کی شرکت نے تحریک انصاف میں ان کے سیاسی مرتبہ میں مزید اضافہ کیا۔ عمران خان آج بھی اگر جہانگیر ترین کی لازوال جدوجہد کا اعتراف کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ترین نے عملی کام کیا، تاہم یہ ضرور ہے کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر ان سے بھی بعض غلطیاں سرزد ہوئیں اور انہوں نے اپنے اہم ترین ساتھیوں کو ناراض کیا جس کا فائدہ مخالفین نے اٹھایا۔

2018 ء کے الیکشن سے قبل الیکٹ ایبلز کی شمولیت اور الیکشن کے بعد عددی اکثریت مکمل کرنے کیلئے جہانگیر ترین کی عبدالعلیم خان کے ساتھ بھاگ دوڑ سیاسی تاریخ کا باب بن چکی ہے اور آج پورا ملک یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان کو مسند اقتدار پر براجمان کروانے میں مرکزی کردار جہانگیر ترین کا ہے، میاں نواز شریف کی نا اہلی کو بیلنس کرنے اور عمران خان کو نااہلی سے بچانے کیلئے جہانگیر ترین ہنسی خوشی ’’قربان‘‘ہو گیا۔طاقت ایک میوزیکل چیئر کی مانند ہوتی ہے، ہر کوئی دوسرے کو دھکا دیکر خود بیٹھنا چاہتا ہے۔

لہذا یہی ہوا، عمران خان کی جہانگیر ترین سے قربت نے عمران خان کے قریبی حلقوں اور تحریک انصاف میں ایک بڑے’’اینٹی ترین ‘‘ دھڑے کو جنم دیا،اپوزیشن تو پہلے ہی عمران خان کو ہٹ کرنے کیلئے جہانگیر ترین کے خلاف تھی کیونکہ وہ جہانگیر ترین کو تحریک انصاف کی طاقت کا محور سمجھتی تھی۔

حکومت ملنے کے بعد عمران خان نے جہانگیر ترین سے مشاورت کو بڑھا دیا تھا اور ان کی رائے کو خاص اہمیت دی جاتی تھی چنانچہ جب معاشی مسائل کی وجہ سے اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے فارغ کیا گیا تو ایک بڑی لڑائی شروع ہو گئی اور پھر اسد عمر، شہزاد اکبر، علی زیدی، پرویز خٹک، زلفی بخاری، چوہدری سرور، شاہ محمود قریشی سمیت 20  کے لگ بھگ رہنماوں اور اعظم خان پر ممشتمل گروپ نے دھیرے دھیرے عمران خان کے ارد گرد اپنی پوزیشن کو نہایت مضبوط بنا لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ جہانگیر ترین اورعمران خان میں خلیج پیدا کر دی گئی۔

منتخب اور غیر منتخب افراد پر مشتمل یہ وہی لابی ہے جس کے کہنے پر عمران خان نے الیکشن میں عوام کے سامنے یکساں تعلیم، بہترین علاج، مہنگائی کے خاتمہ کے دعوے کیئے تھے لیکن آج تک یہ صرف دعوے ہیں کیونکہ جن رہنماوں نے محنت کی تھی اور آگے بھی کارکردگی متوقع تھی ان میں کوئی نیب میں پھنس گیا اور کسی کو راندہ درگاہ کردیا گیا۔ جہانگیر ترین کے مطابق ان کے خلاف بنائے گئے کیسز میں کوئی صداقت نہیں اور نہ ہی وہ قانونی طور پر مضبوط ہیں لیکن ان کی مخالف لابی ان کے خلاف متحرک ہے اور کپتان سے مزید دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جہانگیر ترین علاج کیلئے لندن گئے تو اپوزیشن کے ساتھ ساتھ بعض انصافین رہنماوں نے بھی ان کے خلاف بیان دیئے جیسا کہ پرویز خٹک نے بیان دیا لیکن جب ترین واپس آگئے تو معافی مانگ لی ہے۔

جہانگیر ترین نے وطن واپسی کر کے اپنے سیاسی مخالفین کو زناٹے دار طمانچہ رسید کیا ہے اور ان کی تمام چالیں الٹا دی ہیں،اب ان کی مخالف لابی نیا وار کرنے کی راہ تلاش کر رہی ہے لیکن جہانگیر ترین خاموشی سے بیٹھ گئے ہیں کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ سیاست میں ہمہ وقت فعال رہنا نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے، واپس آکر انہوں نے ایک بھرپور جواب دیدیا ہے اب انتظار کرنا چاہیئے۔

عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان موجود خلیج کبھی بھی ختم ہو سکتی ہے کیونکہ آج بھی دونوں ایکدوسرے کی محبت اورد وستی کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں اورعمران خان کو بھی گزشتہ چند ماہ میں اینٹی ترین لابی کی صلاحیتوں اوراستعداد کی حقیقت معلوم ہو چکی ہے، طاقتور حلقوں کی خواہش بھی یہی ہے کہ دونوں پھر سے ملکر آگے بڑھیں لہذا مستقبل قریب میں کئی ان ہونیاں ممکن ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔