ٹرمپ کی ناک میں دَم کرنے والی چار خواتین

سارہ نایاب  منگل 17 نومبر 2020
’اسکواڈ‘ کہلانے والی اراکین دوبارہ فتح کے بعد جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ فوٹو : فائل

’اسکواڈ‘ کہلانے والی اراکین دوبارہ فتح کے بعد جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ فوٹو : فائل

ان دنوں سب کی نگاہیں امریکی انتخابات  کے حوالے سے تازہ ترین احوال اور تجزیوں پر ہیں۔

کچھ تنازعات کا غلغلہ ہے تو ساتھ میں مستقبل کی پیش گوئیاں بھی جاری ہیں، وہیں امریکی انتخاب کے بہت سے دل چسپ پہلو بھی سامنے آرہے ہیں، جن میں سے ایک اس وقت حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کی چار خواتین امیدواروں کی دوبارہ کام یابی بھی ہے، جو خاصا موضوع بحث بنی ہوئی ہے، انھیں ’اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ان میں نیو یارک کی الگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز (Alexandria Ocasio-Cortez)، مشی گن کی راشدہ طلیب (Rashida Tlaib)، مینیسوٹا کی الہان عمر  (Ilhan Omar) اور میسا چوسیٹس کی آیانا پریسلی (Ayanna Pressley) شامل ہیں، جنھوں نے کانگریس کے ایوان نمائندگان میں اپنی نشستیں دوبارہ حاصل کر لی ہیں، اس سے قبل یہ  چاروں خواتین امیدوار 2018ء  کے وسط مدتی انتخابات میں ہی چناؤ جیتنے کے بعد ایوان نمائندگان تک رسائی حاصل کر چکی تھیں، گویا انھوں نے اب اپنی نشستوں کا نہایت کام یابی سے دفاع کیا ہے۔۔۔

ان چار امیدواروں کی مقبول جوڑی سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس قدر خائف ہیں کہ انھوں نے انھیں اپنے اپنے ملک ’واپس جانے‘ کا مشورہ تک دے ڈالا، وہ کہتے ہیں کہ یہ خواتین’ دراصل ان ممالک سے آئیں، جن کی حکومتیں مکمل طور پر تباہی کا شکار ہیں۔

ایوان نمائندگان میں یہ چاروں خواتین امریکا میں صحت کی سہولتوں، اسلحے کے زور پر کیے جانے والے تشدد اور خاص طور پر میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن کی حراست کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں۔۔۔ اس کی وجہ سے انھیں ٹرمپ کے نسل پرستانہ بیانات کا نشانہ بھی بننا پڑا تھا۔ یہاں تک کہ انھیں مشورہ دیا کہ وہ امریکا چھوڑ سکتی ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے لب ولہجے پر تنقید کے باوجود اپنے ایسے بیانات کا خوب دفاع کیا اور سارے الزامات کو جھٹلا دیا تھا۔

’اسکواڈ‘ اور ’بہنیں‘ کہلانے و الی چاروں نومنتخب خواتین نے موسمیاتی تبدیلیوں، طبی سہولتوں اور دیگر ترقی پسند موضوعات کی حمایت کی، جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روا رکھی جانے والی نسل پرستی کا بھی خوب مقابلہ کیا۔ 2018ء میں راشدہ طلیب اور الہان عمر کو امریکی ڈیموکریٹ پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے کانگریس کے ایوان نمائندگان تک پہنچنے والی پہلی مسلمان خواتین ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ یہ دونوں ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں اور مسلمانوں کے خلاف دیے گئے بیانات کی شدید ناقد ہیں۔

الہان عمر اور الگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے ’ٹویٹ‘ میں اپنی کام یابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ آیانا پریسلی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ’ہم نے اپنی مشترکہ انسانیت اور اقدار کے لیے متحد ہو کر جدو جہد کی ہے۔

امریکا کے حالیہ انتخابات میں منفرد طریقے سے فتح یاب ہونے والی یہ چاروں خواتین نہ صرف امریکی شہری ہیں، بلکہ ان میں سے تین امریکا میں پیدا بھی ہوئی ہیں، جب کہ باحجاب الہان عمر کی پیدائش افریقی ملک صومالیہ کی ہے، تاہم وہ بھی کم سنی میں ہی امریکا آگئی  تھیں۔ اس سے قبل الہان عمر نے اپنا بچپن کینیا کے تارکین وطن کے ایک کیمپ میں گزارا تھا جہاں ان کا خاندان صومالیہ سے نقل مکانی کر کے پہنچا تھا۔ اس کے بعد وہ ایک اسپانسرشپ کی مدد سے امریکی ریاست منیسوٹا پہنچی تھیں۔ 2016 میں 36 سالہ الہان عمر پہلی صومالی امریکن قانون ساز بنیں۔

2018ء میں  اپنی جیت کے بعد انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ جیت اس آٹھ سالہ بچی کے لیے ہے، جو تارکین وطن کے کیمپ میں تھی۔ یہ جیت اس لڑکی کے لیے ہے، جسے زبردستی کم عمری کی شادی کرنی پڑی تھی۔۔۔ یہ جیت ہر اس شخص کے لیے ہے جسے خواب دیکھنے سے روکا گیا تھا۔۔۔ یعنی ان کا اشارہ اپنے ماضی کی کچھ ناخوش گوار یادوں اور تجربات سے تھا۔

2019 میں الہان عمر نے راشدہ طلیب اور جارجیا کے نمائندے جان لوئس کے ساتھ مل کر ایک قرارداد پیش کی تھی کہ تمام امریکیوں کو ملک کے اندر اور باہر انسانی اور شہری حقوق کے حصول کے لیے بائیکاٹ میں شریک ہونے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ انھوں نے تمام امریکیوں کے لیے طبی سہولیات کی بھی حمایت کی تھی۔ ایک موقع پر انھوں نے بتایا تھا کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔ قدامت پسند الہان عمر کے اسرائیل سے متعلق موقف پر تنقید کرتے ہوئے ان پر یہود دشمنی کا الزام لگاتے ہیں۔

الہان عمر کو اپنی جماعت کی جانب سے بھی امریکا اور اسرائیل کے تعلقات پر چند بیانات کی بنا پر شدید تنقید کا سامنا رہا ہے، تاہم انھوں نے یہود دشمن ہونے کے الزام کو مسترد کیا۔ امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹروئٹ سے منتخب ہونے والی رکن کانگریس راشدہ طلیب کے والدین فلسطینی پناہ گزین کی حیثیت سے امریکا آئے تھے۔

راشدہ طلیب ’ڈیٹروئٹ‘ میں پیدا ہوئیں اور وہ 14 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر کے پبلک سکول سے حاصل کی اور پھر ’ویسٹرن مشی گن یونیورسٹی‘ سے قانون کی ڈگری مکمل کی۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’یہ وہ لمحہ تھا، جس میں، میں نے سوچا کہ میں رِنگ سے باہر رہوں یا رِنگ میں اتر کر لڑائی لڑوں۔‘‘ انھوں نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے حلقے مشی گن ریاست کے رہنے والوں کو یہ احساس دینا چاہتی تھیں کہ کوئی ہے، جو ان کی لڑائی لڑ سکتا ہے۔

اس سلسلے کی ایک اور کام یاب امیدوار آیانا پریسلی کی پیدائش اوہایو کی ہے، تاہم وہ جلد ہی شکاگو آگئیں۔ بوسٹن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 2009ء میں وہ بوسٹن سٹی کونسل کے لیے بھی منتخب ہوئیں، جو وہاں  کی سو سالہ  تاریخ میں منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون تھیں۔ وہاں انھوں نے گھریلو تشدد، بچوں کے ساتھ زیادتی اور انسانی اسمگلنگ جیسے مسائل پر کام کیا۔

الگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے کانگریس میں سب سے کم عمر خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا، وہ 1989ء میں نیویارک میں پیدا ہوئیں۔ 2011ء میں بوسٹن یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات اور معاشیات کی ڈگری لینے کے بعد اپنی ماں کی مدد کے لیے انھوں نے بار ٹینڈر کے طور پر کام کیا۔ 2016ء کے پرائمری الیکشن کے دوران انھوں نے برنی سینڈرز کی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے پورے ملک کا دورہ بھی کیا۔

2018 کے وسط مدتی انتخابات میں جو کرولی کو شکست دے کر انھوں نے سب کو حیران کر دیا اور ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں ان کے بارے میں تبصرے ہوئے۔ انھیں اس قدر توجہ ملی کہ انھیں ڈیموکریٹ پارٹی کا چہرہ کہا جانے لگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔