کیا ’’خالص آکسیجن سے علاج‘‘ ہمیں دوبارہ جوان کرسکتا ہے؟

ویب ڈیسک  پير 30 نومبر 2020
ہائپر بیرک آکسیجن تھراپی کا طریقہ کم از کم 100 سال پرانا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہائپر بیرک آکسیجن تھراپی کا طریقہ کم از کم 100 سال پرانا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

تل ابیب: اسرائیلی سائنسدانوں نے 35 عمر رسیدہ رضاکاروں پر تجربات کے بعد دریافت کیا ہے کہ اگر خالص آکسیجن والے ماحول روزانہ کچھ وقت گزارا جائے تو جوانی واپس آسکتی ہے۔

واضح رہے کہ خالص آکسیجن والے علاج کو ’’ہائپربیرک آکسیجن تھراپی‘‘ (ایچ بی او ٹی) کہا جاتا ہے۔

یہ طریقہ 100 سال پرانا ہے جس میں ایک خاص چیمبر کے اندر خالص آکسیجن گیس بھری جاتی ہے۔ گیس کا دباؤ، عام ہوائی دباؤ کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ رکھا جاتا ہے۔

علاج کروانے والے شخص کو خالص آکسیجن والے ماحول میں کم از کم 3 منٹ سے لے کر زیادہ سے زیادہ 120 منٹ (دو گھنٹے) تک رکھا جاتا ہے۔ مذکورہ طریقے پر آکسیجن سے علاج کروانے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود کو پہلے سے زیادہ جوان اور صحت مند محسوس کیا۔

ایسی افواہیں بھی گردش میں رہی ہیں کہ مشہور گلوکار مائیکل جیکسن نے اپنی رہائش گاہ پر ’’ایچ بی او ٹی‘‘ کا مستقل بندوبست کر رکھا تھا اور وہ روزانہ کچھ وقت اپنے ’’آکسیجن چیمبر‘‘ میں گزارا کرتے تھے۔

لیکن کیا خالص آکسیجن سے واقعی کوئی فائدہ ہوتا ہے یا پھر یہ صرف ایک وہم سے بڑھ کر کچھ نہیں؟ یہ جاننے کےلیے اسرائیلی سائنسدانوں نے بزرگ افراد کے خلیوں پر آکسیجن تھراپی کے اثرات جاننے کا فیصلہ کیا۔

مطالعے میں شریک رضاکار بزرگوں کی عمریں 64 سال یا زیادہ تھیں جبکہ انہیں 60 دنوں تک روزانہ آکسیجن تھراپی کے عمل سے گزارا گیا۔

اگرچہ ریسرچ جرنل ’’ایجنگ‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہر رضاکار کو روزانہ کتنی دیر تک زیادہ دباؤ والی آکسیجن کے ماحول میں رکھا گیا، تاہم اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ تحقیق شروع کرنے سے پہلے ہر رضاکار کے ’’مکمل خون‘‘ کا نمونہ حاصل کیا گیا۔ (’’مکمل خون‘‘ میں سرخ اور سفید خلیات کے علاوہ پلازما اور خون میں پائے جانے والے دیگر تمام اجزاء شامل ہوتے ہیں۔)

مطالعے کے دوران کسی بزرگ سے اس کا معمول تبدیل کرنے کےلیے نہیں کہا گیا۔ اس دوران 30 ویں روز، 60 ویں روز اور پھر، آکسیجن تھراپی ختم ہونے کے ایک ہفتے سے دو ہفتے بعد ان رضاکاروں سے مکمل خون کے نمونے لیے جاتے رہے۔

آکسیجن تھراپی سے پہلے اور بعد میں خون کے مختلف خلیوں کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد ماہرین کو معلوم ہوا کہ ان میں ’’بوڑھے خلیات‘‘ کی تعداد کم ہوچکی تھی جبکہ خون میں پائے جانے والے مختلف الاقسام ’’سفید خلیات‘‘ (وائٹ بلڈ سیلز) میں ٹیلومرز کی لمبائی بڑھ چکی تھی۔

بتاتے چلیں کہ ’’ٹیلومرز‘‘ (telomeres) خلیوں میں کروموسومز کے کناروں پر لمبوترے ڈھکنوں جیسے سالمات ہوتے ہیں۔ ہر بار جب کوئی خلیہ تقسیم ہوتا ہے تو ان ٹیلومرز کی لمبائی معمولی سی کم ہوجاتی ہے۔

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹیلومرز کی لمبائی بھی بہت کم رہ جاتی ہے اور بالآخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ خلیہ مزید تقسیم ہونے کے قابل نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں یا تو خلیات بہت تیزی سے مرنے لگتے ہیں یا پھر وہ کسی نہ کسی طرح خود کو زندہ رکھتے ہوئے ’’بوڑھے خلیات‘‘ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

یعنی اس تحقیق میں رضاکاروں کے بوڑھے خلیات میں کمی اور ٹیلومرز کی لمبائی میں اضافہ، یہ دو ایسے خصوصی عوامل تھے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ خالص آکسیجن کے ذریعے ’’علاج‘‘ واقعتاً انسان کو دوبارہ جوان کی طرف لوٹاتا ہے۔

اس اہم دریافت کے باوجود، ابھی یہ معلوم ہونا باقی ہے کہ دیگر جسمانی افعال (فنکشنز) اور نظاموں (سسٹمز) پر آکسیجن تھراپی کا طریقہ کس حد تک کارگر ہے اور یہ کس حد تک جوانی کو واپس لا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔