فلسطین

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 3 دسمبر 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پچھلے دنوں بعض عرب ملکوں نے اسرائیل سے تعلقات استوارکر لیے اور ان ملکوں کے درمیان باضابطہ فضائی سروس کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ اسرائیل ایک جابرانہ ملک ہے امریکا نے اسے اس قدر طاقتور ملک بنا دیا ہے کہ وہ سارے مشرق وسطیٰ پر اپنی داداگیری چلا رہا ہے۔

اصل مسئلہ فلسطین کا ہے اور اسرائیل فلسطین کو اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ مستقل غیر یقینیت کا شکار ہے، سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ بڑی طاقتیں فلسطین کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

فلسطین کا مسئلہ ایک سیدھا سادھا مسئلہ ہے اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کر کے عملاً اسے اسرائیل کا ایک حصہ بنا دیا ہے اس جارحیت کی وجہ سے فلسطین کے لاکھوں عوام دنیا بھر میں دربدر پھر رہے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی ہرگز نہیں چاہتے کہ مشرق وسطیٰ میں فلسطین ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے زندہ رہے۔

اس علاقے کا المیہ یہ ہے کہ عرب حکمرانوں کے مفادات امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ کوئی عرب ملک، ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے فیصلے کرنے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ مغربی طاقتوں نے اپنے تیل کے مفادات کی وجہ سے فلسطین کا مستقبل اور فلسطین کی شناخت ختم کر دی گئی ہے۔

شام ایک عرب ملک ہے لیکن اس بدنصیبی کو کیا کہیں کہ دو ملکوں شام اور اسرائیل نے ایرانی تنصیبات پر حملہ کر کے 14جنگجو ہلاک کر دیے۔ جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق شام کے مشرقی حصے میں عراق اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے 14 ایران نواز ملیشیا ہلاک ہو گئے ہیں۔ علاقے میں ہفتے اور اتوار کی شب فضائی حملے کیے گئے جن میں یہ ہلاکتیں ہوئیں۔ سرحدی دیہات ابو کمال میں کم از کم 10 مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں امکاناً اسرائیل ملوث ہے۔ تاہم اسرائیلی حکام نے ان حملوں پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ ابو کمال کی طرف ایرانی ملیشاؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

ملیشیا کی عسکری گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔ ابھی تک یہ واضح نہ ہو سکا کہ یہ حملہ اسرائیل کا تھا یا پھر زمین سے زمین تک مار کرنے والوں میزائلوں کا۔ نامعلوم طیاروں کی جانب سے جنوب مشرق میں واقع دیہات میں بھی حملے کیے گئے ملیشیا کی عسکری گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔ یہاں ایران کی ہمنوا فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ یہاں ایران کی ہمنوا شامی اور غیر شامی ملیشیا کے علاوہ داعش تنظیم بھی ملوث ہے شام میں 14 سالہ بچی کے اغوا کے بعد بے دردی سے قتل کر کے لاش جلا دی گئی۔ ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

امریکا میں ٹرمپ پچھلے پانچ سال برسراقتدار رہے، اگر ٹرمپ چاہتے تو فلسطین کے مسئلے کو کبھی کا حل کر سکتے تھے لیکن اسرائیل کی لابی اس قدر مضبوط ہے کہ ایک ٹرمپ چھوڑیے، دس امریکی صدور بھی اگر چاہیں تو فلسطین کے مسئلے کو حل نہیں کر سکتے کیونکہ سیاسی مفادات کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا فلسطین کے مسئلے کو حل ہونے کیوں نہیں دیتا۔ اس کے پیچھے سیاسی مفادات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ فلسطین کو غزہ پٹی تک محدود کر دیا گیا ہے۔

دنیا میں آزاد اور خود مختار ملکوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے اگر یہ آزاد اور خود مختار ممالک چاہیں تو فلسطین کے مسئلے میں کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اسرائیلی مفادات کا ہر حوالے سے تحفظ ضروری ہے۔ پچھلے دنوں اسرائیل نے بعض عرب ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر کیے لیکن اس حوالے سے جو مثبت اثرات اس خطے میں آنے چاہئیں وہ نہیں آ رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خطے میں اسرائیلی بالادستی کا تحفظ ہے۔

اسرائیل ہر قیمت پر اپنی بالادستی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اس مسئلے پر اسرائیل کسی عرب ملک کو کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ادھر او آئی سی کی تنظیم ہے جو عملاً امریکا کے پٹھو کا کام انجام دے رہی ہے اس تناظر میں خطے میں کسی بڑی تبدیلی کے امکانات معدوم ہیں۔

بھارت کے اپنے مفادات ہیں اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی کمپرومائز کے لیے تیار نہیں۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا اسرائیل فلسطین کو غزہ کی پٹی سے باہر نکلنے دینا چاہتا ہے؟ اصل میں عالمی سیاست بڑی طاقتوں کے درمیان دلالی کا کام انجام دیتی ہے اور یہ تعداد بھارت فلسطین میں بڑے بڑے پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے اس کے مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی لابیوں کو مضبوط کرے اس قسم کی صورتحال میں فلسطین کے مسئلے کا حل کیا ممکن ہے۔

ادھر غریب ریاستوں کے مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ وہ فلسطین کے حوالے سے کسی بے لچک پالیسی سے گریزاں رہیں، جب تک بڑیطاقتوں کے مفادات اسرائیل کی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتے دنیا لاکھ کوشش کرے اسٹیٹس کو میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی یہی حقیقت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔