پاکستان میں سالانہ ذیابیطس کے4 لاکھ مریض ٹانگوں سے معذور ہوجاتے ہیں، ماہرین

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 5 دسمبر 2020
مریضوں کو آگاہی فراہم کرنے اور فٹ کلینکس کے قیام سے ذیابیطس کے باعث معذوری اور اموات کی شرح کم کی جاسکتی ہے(فوٹو، فائل)

مریضوں کو آگاہی فراہم کرنے اور فٹ کلینکس کے قیام سے ذیابیطس کے باعث معذوری اور اموات کی شرح کم کی جاسکتی ہے(فوٹو، فائل)

 کراچی: ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال ذیابطیس کے نتیجے میں ہونے والے پاؤں کے زخموں کی وجہ سے 3 سے 4 لاکھ افراد اپنی ٹانگوں یا پاؤں کے کچھ حصوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔

آٹھویں دو روزہ نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈائبیٹیز ایجوکیٹرز پاکستان کی آٹھویں فٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معروف ماہر امراض ذیابیطس اور ڈائبیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ذیابطیس کے نتیجے میں پاؤں میں ہونے والے زخموں کے بعد پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کے نتیجے میں 3 سے 4 لاکھ افراد میں سے 30 فی صد افراد ایک سال کے اندر اندر انتقال کر جاتے ہیں اور 70 فی صد افراد کی موت پانچ سال کے اندر ہوجاتی ہے۔

پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پورے ملک کے طول و عرض میں 3000 خصوصی فُٹ کلینکس قائم کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے نہ صرف لاکھوں لوگوں کو معذور ہونے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ کئی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے نہ صرف ڈاکٹروں نرسوں اور ٹیکنیشنز کو ٹریننگ دی ہے بلکہ پاؤں کے زخموں سے بچانے کے لیے خصوصی جوتے تیار کرنے کے ادارے بھی قائم کیے ہیں، جہاں چند سو روپے کے عوض ایسے جوتے اور سول تیار ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں پاؤں کی بہتر حفاظت ہوتی ہے۔

پروفیسر عبد الباسط کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے پورے ملک میں 150 خصوصی فٹ کلینکس قائم کیے ہیں جہاں پر آنے والے لوگوں میں ٹانگیں کٹنے کی شرح میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے فٹ کلینکس تمام ضلعی اور تحصیل اسپتالوں میں قائم کئے جائیں تاکہ ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔

کانفرنس سے پاکستان کے مختلف شہروں سمیت یورپ، امریکا، افریقا اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک سے ذیابطیس کے ماہرین نے خطاب کیا اور شوگر کے مرض کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیوں، خاص طور پر پاؤں میں ہونے والے زخموں اور اس کے نتیجے میں ٹانگیں اور پاؤں کے علاج پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔