- وزیر داخلہ کا کچے کے علاقے میں مشترکہ آپریشن کرنے کا فیصلہ
- فلسطین کواقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کا وقت آ گیا ہے، پاکستان
- مصباح الحق نے غیرملکی کوچز کی حمایت کردی
- پنجاب؛ کسانوں سے گندم سستی خرید کر گوداموں میں ذخیرہ کیے جانے کا انکشاف
- اسموگ تدارک کیس: ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات لاہور، ڈپٹی ڈائریکٹر شیخوپورہ کو فوری تبدیل کرنیکا حکم
- سابق آسٹریلوی کرکٹر امریکی ٹیم کو ہیڈکوچ مقرر
- ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج
- راولپنڈٰی میں بیک وقت 6 بچوں کی پیدائش
- سعودی معاون وزیر دفاع کی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو
- پختونخوا؛ دریاؤں میں سیلابی صورتحال، مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو الرٹ جاری
- بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز،21 ریاستوں میں ووٹنگ
- پاکستانی مصنوعات خریدیں، معیشت کو مستحکم بنائیں
- تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں، اسرائیل ایران پر براہ راست حملے کی ہمت نہیں کریگا، ایکسپریس فورم
- اصحابِ صُفّہ
- شجر کاری تحفظ انسانیت کی ضمانت
- پہلا ٹی20؛ بابراعظم، شاہین کی ایک دوسرے سے گلے ملنے کی ویڈیو وائرل
- اسرائیل کا ایران پرفضائی حملہ، اصفہان میں 3 ڈرون تباہ کردئیے گئے
- نظامِ شمسی میں موجود پوشیدہ سیارے کے متعلق مزید شواہد دریافت
- اہم کامیابی کے بعد سائنس دان بلڈ کینسر کے علاج کے لیے پُرامید
- 61 سالہ شخص کا بائیو ہیکنگ سے اپنی عمر 38 سال کرنے کا دعویٰ
سرمایہ پاکستان: بیمارادارے چلانے کیلیے قائم کردہ ادارہ خود بیمار
اسلام آباد: پاکستان میں ریاستی ملکیتی تجارتی اداروں ( SOEs ) کے ذمے واجب الادا قرضے ایک ٹریلین روپے کی حد سے بڑھ چکے ہیں۔
ان اداروں کی انتظام کاری کیلیے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سنگاپور اور چین سے متاثر ہو کر 13 فروری 2019 ء کو ایک نئی کمپنی ’’سرمایۂ پاکستان لمیٹڈ‘‘ ( ایس پی ایل) قائم کی۔ سرمایۂ پاکستان لمیٹڈ کو ابتدا میں 200 کے لگ بھگ پبلک لمیٹڈ کمپنیاں چلانے اور ان اداروں کے انتظامی فیصلوں میں متعلقہ وزارتوں کا کردار ختم کرنے کی ذمے داری دی گئی تھی۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ اب ایس پی ایل ایک غیرفعال ادارہ ہے جس کے بیشتر بورڈ ممبران مستعفی ہوچکے ہیں اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر کا تقررکھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
درحقیقت Q بلاک کا ایسی ’ بھوت کمپنیاں‘ یا اسپیشل پرپز وھیکلز ( SPVs) ) لانچ کرنے کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ ایس پی ایل بھی ایک ایسا ہی وینچر معلوم ہوتا ہے، جسے صرف عالمی ترقیاتی بینکوں سے گرانٹ حاصل کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ یہ اس حقیقت سے بھی عیاں ہے کہ ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ادارہ جاتی اصلاحات سیل کو کابینہ سے 237 اداروں کو بطور خودمختار باڈیز اور87 کو وفاقی حکومت کے ایگزیکٹیو ڈپارٹمنٹس کے طور پر اپنے پاس رکھنے کی منظوری مل گئی۔
متعلقہ وزارتیں اب ان ذیلی اداروں یا کمپنیوں کو ایس پی ایل کو منتقل کرنا چاہتی ہیں جنھیں وہ بوجھ سمجھتی ہیں یا قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے انھیں تحلیل نہیں کرسکتیں۔ مثال کے طور پر وزارت صنعت و پیداوار صرف اسٹیٹ انجنیئرنگ کارپوریشن ایس پی ایل کو منتقل کرنا چاہتی ہے جبکہ مزید 35 کمپنیاں بھی اس کے پاس ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔