سرمایہ پاکستان: بیمارادارے چلانے کیلیے قائم کردہ ادارہ خود بیمار

ایکسپریس ٹریبیون رپورٹ  پير 7 دسمبر 2020
بورڈ ممبران کا بروقت اور شفاف انداز میں تقرر کرکے ایس پی ایل کو  فعال بنایا جاسکتا ہے

بورڈ ممبران کا بروقت اور شفاف انداز میں تقرر کرکے ایس پی ایل کو  فعال بنایا جاسکتا ہے

 اسلام آباد: پاکستان میں ریاستی ملکیتی تجارتی اداروں ( SOEs ) کے ذمے واجب الادا قرضے ایک ٹریلین روپے کی حد سے بڑھ چکے ہیں۔

ان اداروں کی انتظام کاری کیلیے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سنگاپور اور چین سے متاثر ہو کر 13 فروری 2019 ء کو ایک نئی کمپنی ’’سرمایۂ پاکستان لمیٹڈ‘‘ ( ایس پی ایل) قائم کی۔ سرمایۂ پاکستان لمیٹڈ کو ابتدا میں 200 کے لگ بھگ پبلک لمیٹڈ کمپنیاں چلانے اور ان اداروں کے انتظامی فیصلوں میں متعلقہ وزارتوں کا کردار ختم کرنے کی ذمے داری دی گئی تھی۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ اب ایس پی ایل ایک غیرفعال ادارہ ہے جس کے بیشتر بورڈ ممبران مستعفی ہوچکے ہیں اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر کا تقررکھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔

درحقیقت Q بلاک کا ایسی ’ بھوت کمپنیاں‘ یا اسپیشل پرپز وھیکلز ( SPVs) ) لانچ کرنے کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ ایس پی ایل بھی ایک ایسا ہی وینچر معلوم ہوتا ہے، جسے صرف عالمی ترقیاتی بینکوں سے گرانٹ حاصل کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ یہ اس حقیقت سے بھی عیاں ہے کہ ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ادارہ جاتی اصلاحات سیل کو کابینہ سے 237 اداروں کو بطور خودمختار باڈیز اور87 کو وفاقی حکومت کے ایگزیکٹیو ڈپارٹمنٹس کے طور پر اپنے پاس رکھنے کی منظوری مل گئی۔

متعلقہ وزارتیں اب ان ذیلی اداروں یا کمپنیوں کو ایس پی ایل کو منتقل کرنا چاہتی ہیں جنھیں وہ بوجھ سمجھتی ہیں یا قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے انھیں تحلیل نہیں کرسکتیں۔ مثال کے طور پر وزارت صنعت و پیداوار صرف اسٹیٹ انجنیئرنگ کارپوریشن ایس پی ایل کو منتقل کرنا چاہتی ہے جبکہ مزید 35 کمپنیاں بھی اس کے پاس ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔