گورنمنٹ سنڈے من ہائی اسکول

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 13 دسمبر 2020
وادی کوئٹہ کا پہلا ہائی اسکول جسے اہم قومی شخصیات کی درس گاہ ہونے کا امتیاز حاصل ہے

وادی کوئٹہ کا پہلا ہائی اسکول جسے اہم قومی شخصیات کی درس گاہ ہونے کا امتیاز حاصل ہے

کوئٹہ شہر انگریزوں نے 1878 میں تعمیر کیا تھا۔ یہ چھوٹا سا شہر اتنا خوبصورت تھا کہ انگریز اسے لٹل پیر س اور لٹل لندن کہا کرتے تھے۔

یہاں کے پُر فضا اور صحت افزا ماحول کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئٹہ میں باہر سے آنے والوں پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور جو کوئی شخص یہاں آتا وہ انگر یز سرکار کے خصوصی اجازت نامے کے ساتھ کو ئٹہ آتا۔ یہ اجازت نامہ اُسے کوئٹہ سے پہلے سبی کے ریلوے اسٹیشن پر نہ صرف حکام کو دکھا نا پڑتا تھا بلکہ اس کے بعد آنے والے کا میڈیکل چیک اپ بھی سبی میں ہوتا تھا۔

اگر کو ئی بیماری پائی جاتی تو اُسے سبی ہی سے اُسے واپس کر دیا جاتا تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ انگر یزوں نے کو ئٹہ کے لیے یہ پابندی اس لیے بھی عائد کی تھی کہ یہاں انگریزوں نے اپنی اسٹرٹیجیکل پوزیشن کو بر قرار رکھنے کے لیے بلو چستان کو ہند وستان کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں صوبائی حیثیت سے محروم رکھا تھا۔

برصغیر کے دوسرے صوبوں اور علاقوں کے مقابلے میں یہاں ہر قسم کی سیاسی سر گر میوں پر پابندیاں عائد تھیں۔ اس صورتحال کے تدارک کے لیے 1929 میں قائد اعظم نے اپنے مشہور چودہ نکات میں جہاں جداگانہ انتخاب ، سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے صوبہ بنانے اور صوبہ خیبر پختوانخواہ میں سیاسی اصلاحات کرنے کے مطالبات بھی کئے تھے وہاں بلو چستان کو بھی صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا باقی مطالبات انگریز سرکار نے تسلیم کر لیئے تھے مگر بلو چستان کو صوبے کا درجہ نہیں دیا۔

جب انگر یروں نے یہ شہر آباد کیا تو اس کے ساتھ ہی ایک بڑی چھائونی بنائی اور پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی سمنگلی روڈ کے علاقے میں ایک اہم ہوائی اڈہ سمنگلی رائل ایربیس کے نام سے قائم کیا جہاں تقریباً ڈیڑھ درجن لڑکا طیارے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔

انگریزوں نے جب یہ شہر آباد کیا تو یہاں مقامی طور پر ہنرمند کاریگر یعنی ترکھان ،راج، لوھار ، نائی ، درزی ، دھوبی نہیں تھے اور انگریز سرکار کے لیے انگریزی جاننے والے کلرک بھی نہیں تھے اس لیے یہ تما م افراد ہند وستان کے اُن علاقوں سے یہاں لائے گئے تھے جہاں انگریز سرکار کا اقتدار مضبو ط ہو چکا تھا اور مقامی آبادی کی دو تین نسلیں انگریزوں کے ساتھ کام کر چکی تھیں۔

شہر کی تعمیر کے بعد یہاں شہر اور چھاونی کی آبادی کے لئے تعلیم اور صحت کی ضروریات بھی محسوس کی گیئں تو انگر یروں نے تین چار پرائمری اسکولوں کے ساتھ حالیہ سائنس کالج کے مقام پر بلوچستان کا پہلا ہائی اسکو ل بنایا جس کا نام گورنمٹ سنڈے من ہائی اسکو ل رکھا اور اس کے باکل قریب ہی سنڈے من ہسپتال تعمیر کیا گیا۔

کو ئٹہ کی تعمیر کے وقت یہاں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آنے والے ملازمین میں 80 فیصد تعداد ہندوں اور سکھوں کی تھی البتہ نچلے درجے کے ملازمین یہاں مقامی طور پر بھرتی کئے گئے تھے۔ شہرآباد ہو نے کے چند برس بعد ہندو ، سکھ آبادی نے اپنی مذہبی ثقافتی تہذیبی اقدار کے تحفظ کے لیے اپنے تعلیمی ادارے قائم کئے۔ ہندوں نے آج کے سنڈے من ہائی اسکول کی جگہ اپنے مرکزی مندر کے ساتھ سناتادھرم ہائی اسکول کے نام سے اسکول قیام کیا اور سکھوں نے آج کے اسپیشل ہا ئی اسکول کی جگہ خالصا ہائی اسکو ل بنایا اس کو دیکھتے ہو ئے اور سرسیدکے علی گڑھ سے متا ثر ہو کر کو ئٹہ کی اُس کی مقامی آبادی نے اپنے بچوں کی تعلیم میں اسلامی اقدار کے فروغ کو مدنظر رکھتے ہو ئے اسلامیہ ہائی اسکول قائم کیا جو آج بھی اپنی جگہ اپنے نام کے ساتھ موجود ہے۔

31 مئی 1935 کے خوفناک اور تباہ کن زلزے میں کوئٹہ شہر کی کل پچاس ہزار آبادی میں سے تیس ہزار افراد جاں بحق ہو گئے جب کہ گرد و نواح کی آبادیوں میں سے مزید بیس ہزار افراد جاں بحق ہو ئے اگر چہ 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی مگر انگریزوں نے کو ئٹہ کی اسٹرٹیجیکل اہمیت کو مدنظر رکھتے 1937 کے بلڈنگ کو ڈ کو متعارف کرواتے ہو ئے 1942 تک کو ئٹہ کو دوبار ہ اور زیاد ہ خوبصورت انداز میں تعمیر کر دیا اور اس دوران گورنمنٹ سنڈے من ہائی اسکول اپنے عملے کے ساتھ عارضی طور پرکوئٹہ کے نزدیک پشین میں کام کرتا رہا پھر جب یہاں اس کی عمارت دو بارہ تعمیر ہوگئی تو نئی عما رت میں منتقل ہو گیا۔

سنڈے من ہا ئی اسکول میں ایف اے تک تعلیم کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ گو کہ یہ اُس وقت ہائر سیکنڈ ری اسکول تھا مگر عام لوگ اسے کا لج کہنے لگے تھے۔ 14 اگست1947 کو جب پاکستان قائم ہوا تو یہاں کے 100 فیصد ہند و اور سکھ سرکاری ملازمین اور اکثر کا روباری ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے جس کے نتیجے میں سناتا دھرم ہائی اسکول اور اس سے ملحقہ ہندوں کا مرکزی مندر ویران ہوگیا۔

ایسی ہی صورت گرو دت سنگھ روڈ پر واقع خالصا ہائی اسکول کے ساتھ ہو ئی۔ پاکستان کے قیام کے وقت آج کے پاکستانی علاقے سے 45 لاکھ ہندووں اور سکھووں نے بھارت ہجرت کی اور اس کے مقابلے میں بھارت سے 65 لاکھ مسلمان پاکستان آئے اور اِن کی اکثریت شہری علاقوں میں آباد ہوئی یوں کوئٹہ شہر میں بھی اِن پنجابی اور اردو بولنے والے مہاجرین کی ایک بڑی اکثریت آباد ہوئی جس نے دیگر شعبوں اور محکموں میں ہندوں اور سکھوں کے بھارت ہجرت کرنے سے پیدا ہو نے والے خلا کو پُر کیا اور پھر آج کا گورنمٹ سانئس کالج بلو چستان کا پہلا مکمل ڈگری کالج بن گیا تو بلوچستان کا پہلا گورنمٹ ہائی اسکول جو یہاں سناتادھرم اسکول کی عمارت میں منتقل ہوا تھا اُسے ملحقہ ویران مندر کی عمارت بھی دے دی گئی یوں اِس کی کشادگی میں اضاٖفہ ہو گیاجب کہ سکھوں کا خالصا ہائی اسکول بھی گورنمنٹ اسپیشل ہائی اسکو ل بنا دیا گیا۔

جہاں تک تعلق ہے اسکول کے نام کا تو سنڈے من بلو چستا ن 1877 میں تعینات ہونے والا ایجنٹ ٹو گورنر جنرلAGG تھا جس کے نام پر1878 میں جب کوئٹہ شہر آباد ہوا تو جو پہلا اسکول تعمیر ہوا۔

میں غالباً 1967 میں کلی شیخان مڈل اسکول سے ساتویں پاس کر کے آٹھویں جماعت میں سنڈے من ہا ئی اسکو ل میں داخل ہوا تھا کہ اور1969تک ہاں بطور طالب علم رہا۔ یہ میرے لڑکپن کا دور ہ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسکول میں کو ئٹہ کینٹ سے بھی فوجی افسران اور دیگر اسٹاف کے بچے یہاں پڑھنے آتے تھے اور اُن کو فوجی ٹرک یہاں لاتے اور واپس لے جا تے تھے۔ سنڈے من ہائی اسکول کو ساٹھ کی دہا ئی کے آغاز اور وسط میں گل محمد مجاہد جیسا عظیم ہیڈ ماسٹر ملا تھا۔

بلوچستان میں تعلیم کے لیے ان کی محنت ،عزم اور خدمت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ حکومت نے اُنہیں اس پُر خلوص عزم اور محنت کے اعتراف میں مجا ہد کا خطاب دیا تھا۔ جب میں سنڈے من ہا ئی اسکول میں پڑھتا تھا وہ بہت خوبصورت دور تھا۔ شہر کی آبادی اگر چہ اسی ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان پہنچ رہی تھی مگر پھر بھی شہر بہت کشادہ تھا اور شہریوں کے دل بھی بہت کشادہ تھے۔ سڑکیں اور گلیاں اگر چہ بہت کشادہ نہ تھیں مگر اِن کے دنوں طرف گھنے سایہ دار درخت ہو اکرتے تھے۔ شہرمیں ہر گلی محلے میں سڑک یا گلی کے کنارے پر پبلک نلکے لگے ہو تے تھے۔

بڑے گھروں کے اندر اپنے نلکوں کا رواج تھا جب کہ گوالمنڈی ، دیبہ ، ہدہ ، وغیرہ میں دس فٹ سے بیس فٹ پر شفاف میٹھے پانی کے کنوئیں ہر گھر میں موجود تھے۔ جب میں سنڈے من ہائی اسکول میں داخل ہوا تو اُس وقت ہمارے ہیڈ ماسٹر چوہدری ولی محمد ہو اکر تے تھے۔ یہ پرانی وضع قطع کی تعلیم یافتہ اور پُر وقار شخصیت کے مالک تھے۔ لمبا قد ، بھرا جسم، قدرے بڑی اور شفیق آنکھیں، سفید داڑھی، سر پر جناح کیپ، شیروانی اور شلوار، گرمی ہو یا سردی اُن کا یہی لباس ہوتا تھا۔

شیروانی کے تمام بٹن بند رکھتے البتہ گرمیوں کی مناسبت سے شیروانی ٹھنڈ ے کپڑے کی ہو تی۔ اُس زمانے میں کو ئٹہ کا موسم بھی باوقار تہذیب یا فتہ شخصیت کی طرح اپنی اقدار پر صدیوں سے قائم چلا آرہا تھا۔ پندرہ نومبر سے سرکاری طور پر سردی کے موسم کا آغاز ہوتا تھا۔ بچے صبح سردی سے کانپتے ہو ئے آتے تو ہر کلاس روم میں کو ئٹہ اسٹوپ دہک رہا ہوتا۔ 16 دسمبر کو اسکو ل میں سالانہ امتحان کے نتائج کا اعلان ہو تا اور پھر اسکو ل موسم سرما کی تعطیلات کے لئے بند ہو جاتا۔ یکم مارچ سے دوبارہ تعلیم کا آغاز ہو جاتا۔

15 مارچ تک پھر کلاسو ں کے کمروں میں اسکو ل کی جانب سے اسٹوپ دہکتے۔ پندرہ مارچ کے بعد بادام ،خوبانی ، آڑو ،ناشپاتی ،شفتالو، آلوچے اور دیگر پھلدار درخت سفید ، نارنجی، کاسنی پھولوں سے لد جاتے اور جب یہ شہریوں پر اپنی پتیاں نچھار کر چُکتے تو پھر پورا شہر چنبیلی کے پھو لوں سے مہک اُٹھتا۔ شہر سے ذرا باہر چاروں اطراف ایستادہ کو ہ مہردار ، چلتن ، تکتو، اور زرغون کی ڈھلانیں سرخ اور پیلے خود رو گل لالہ کی چادریں اوڑھ لیتیں۔ جب بارش ہو تی تو بوئے مادران کی خوشبودار جنگلی بوٹیوں کی خوشبوئیں پہاڑوں اور دشت سے آنے والی خنک ہوا ئوں پر سوار ہو کر میرے شہر کو ئٹہ میں بارشوں کے اختتام تک ڈیرے ڈالے رکھتیں۔ سنڈے من اسکول میں کافی درخت ہوا کرتے تھے۔

اس کے احاطے میں اور مندر کے سامنے بھی، اسکول کے گرد واقع فاطمہ جناح روڈ ،یٹ روڈ،تولہ رام روڈ اور پھر سنڈے من اسکول کے مغرب میں آج بھی بڑے رقبے پر موجود پارسی کالونی کی ہر کوٹھی اور لان میں آج بھی درختوں کی وہی بہار ہے۔ مگر آج موسم بہار میں ان خوشبوئو ں کو ہر لمحہ گذرتی ہزاروں گاڑیوں کا دھواں نگل جاتا ہے۔

گورنمنٹ سنڈے من اسکول سے میرے وابستگی دو ادوار میں پہلے بطور طالبِ علم اور پھر استاد کی حیثیت سے رہی۔ یوں میری یادوں میں یہ اسکول لڑکپن اور جوانی کے خوبصورت رنگوں اور مناظر کے ساتھ موجود ہے۔ جب میں بحیثیت طالبِعلم سنڈے من ہائی اسکول میں داخل ہوا تو یہ بے فکری کا زمانہ تھا۔ اللہ گواہ ہے کہ دل ودماغ میں کہیں کچھ بننے کا خیال نہیں تھا، بس ہم تھے اور ہمار ے دوست تھے۔ بہر ام حسین ہماری کلاس کا مانیٹر تھا، شفیع ،منان ،نذر،سلطان محمو د طارق، طاہر ، عارف، ظہیر،عاصم، ریاض،رشید، شفیق احمد کے علاوہ بھی بہت سے دوست تھے جن کے نام زمانے کی گردش نے بھلادئیے مگر چہرے اب بھی ذہن میں ہیں۔

اِن میں سے میں، رشید ، طاہر ، اور شفیق اسکول کی ہاکی ٹیم میں کھیلتے رہے۔ شفیق اس اعتبار سے کچھ سنیئر تھا اور بعد میں وہ قومی ہاکی ٹیم میں گیا اور اولمپک، ورلڈ کپ، میں بھی پاکستان کی قومی ٹیم میں کھیلا۔ میں اُس زمانے میں اسکو ل کی بزم ِ ادب میں بھی تھا اور اسکول کی جانب سے بطور مقرر مقابلوں میں شریک ہو تا تھا۔ کئی مرتبہ پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کر کے اسکول کے لیئے ٹرافیاں جیتیں مگر پڑھائی میں ،میں کوئی زیاد پڑھا کو یا بہت لائق فائق نہیں تھا۔

ہمارے زمانے میں استاد اور شاگر د کا رشتہ بہت مضبوط ،مقدس اور قابل احترام تھا۔ اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم ہوا کر تی تھیں مگر اِس کے باوجود ٹیوشن پڑھانے کو اساتذہ کی اکثریت کچھ اچھا تصور نہیں کرتی تھی۔ شہر چھوٹا تھا اس لیے اگر محلے ہی میں کسی استاد کی رہائش ہوتی تو کوئی بھی شاگرد اُس کے گھر جا کر کچھ پو چھ سکتا تھا اور استاد اس پر خوش ہو تا تھا۔

اُس زمانے میں اساتذہ کو طالب علموں کو مارنے کی اجازت تھی اور یہ اجازت اساتذہ کو معاشرتی اخلاقی اقدار نے دے رکھی تھی۔ والدین کی اکثریت جب بچے کے استاد کے پاس آتی تو ایک روائیتی جملہ کہتی ،،کہ اس کی کھال اور ہڈیاں ہمار ی اور گوشت تمارا ہے ،،اب یہ معلوم نہیں کہ یہ محارہ یا جملہ کس نے بنا یا تھا کہجب ہمیں ڈنڈے لگتے تو ظاہر ہے پہلے بیچاری کھال ہی متاثر ہو تی تھی۔ اکثر اوقات ڈنڈے ایسے مقامات پر مارے جاتے تھے کہ وہ دکھائے بھی نہیں جا سکتے تھے۔ یہ صورت مرغا بنا کر ڈنڈے مارنے کے بعد ہوتی تھی۔

اس جسمانی سزا کا ہمار ی عمروں یا اسی کی دہائی تک کے طالب علموں کو تجربہ بھی ہو گا۔ اس حوالے سے سنڈے من ہائی اسکول میں میری زندگی کا پہلا ناقابلِ فراموش واقع پیش آیا تھا۔ اُس وقت جو اساتذہ ہمیں پڑھاتے تھے اُن میں عطامحمد، حمید صاحب ،جعفر صاحب عتیق صاحب جو سیکنڈ ہیڈماسٹر بھی تھے، ارشد صاحب اور خدائے داد صاحب ’جن کی دہشت سے سارے طالباء کانپتے تھے ، اُن کے ہاتھ میں ہمیشہ بیت کاموٹا اور تقریباً ڈیڑھ میٹر لمبا ڈنڈا ہوتا۔ اُن کی ڈیوٹی میں ہفتے میں اسلامیات کے صرف دو پریڈ ہوتے تھے باقی تما م دن اُن کی ڈیوٹی گراونڈ میں ہو تی تھی۔

اُن کا ڈنڈا کسی بھی طالب علم کے جسم کے کسی حصے کا خیال نہیں کرتاتھا اورنہ ہی طالب علم کے خاندانی منصف وغیرہ کا، اس لیے سنڈے من ہا ئی اسکول کا ڈسپلن مثالی تھا۔ کھبی اگر کو ئی طالب علم کو ئی بڑی غلطی کربیٹھتا جیسے کسی استاد کا احترام مجروح ہوتا تو چوہدری ولی محمد یا اُن سے پہلے کے ہیڈ ماسٹرحاصبان اُس لڑکے کی ’’تواضع‘‘ کے لیے اُسے خدائے داد صاحب کے حوالے کر دیتے تھے اور صر ف اس دوران وہ نہ صرف ڈنڈا پٹائی کرتے۔ ہمارے ایک ٹیچر صوبہ خیبر پختواہ کے کسی بڑے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔

سرخ و سفید رنگ، دراز قد بڑی بڑی بھوری آنکھیں، ہلکے سنہری بال، مہنگا لباس جو اکثر شلوار قمیض ہوتا، سردیوںمیں کوٹ اور گرمیوں واسکٹ پہنی ہوتی، کالی پشاوری چیل جس سے چلتے وقت چرچر کی ایسی آواز نکلتی جو ارد گرد موجود عام جوتوں پر طنز کرتی معلوم ہو تی تھی، کلائی پر خوبصورت اور مہنگی گھڑی اور اسی ہاتھ کی انگلی میں ایک بڑے اور شفاف نیلم کے جڑاو کی سونے کی موٹی انگھوٹی۔ اُن کی کمر پر سیاہ چمڑے کی پیٹی کے ساتھ ایک پستول ہمیشہ بندھا رہتا ،وہ صبح اسکول شورلیٹ مو ٹر کار میں آتے، پچھلی نشت پر بیٹھے ہو تے اور ڈرائیور اُنہیں اسکول چھوڑنے کے بعد واپس ہوجاتا اورپھر چھٹی کے وقت اُنہیں لینے آتا۔ ون یو نٹ کا زمانہ تھااوربلو چستان بھی صوبہ مغربی پا کستان میں شامل تھا۔ ان ٹیچر کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اُن کے علاقے میں اِن کی قبائلی دشمنی ہے اور دونوں طرف کے درجن بھر افراد قتل ہو چکے ہیں اور یہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں.

اس لیے اِن کو یہاں اِن کے کسی عزیز کے پاس بھیج دیا گیا اور نوکری یہ وقت گذاری کے لیے کرتے ہیں۔ وہ بھی باقی ٹیچرز کی طرح طالب علموںکو مارتے تھے چونکہ نوجوان اور طاقتورتھے لہٰذا ایک ڈنڈے کی چوٹ دوسرے اساتذہ کے مقابلے دگنی ہو تی تھی۔

اُس وقت گراونڈ کے سامنے والے پختہ بلاک کے علاوہ باقی کمرے قدرے اُونچے اور ٹین کی چھت کے ساتھ تھے اور یہ بڑے اور مستطیل کمرے تھے جن میں چوڑائی پر دونوں طرف دو دروازے تھے اور کلاس کے کمرے میں دودو ڈیکسوں کے جوڑوں کے ساتھ دونوں دروازوں کے ساتھ دو قطاریں تھیں اور پھر دونوں دروازوں کے درمیان تین تین ڈیکسوں کے ساتھ ایک قطار تھی۔

دونوںدروازوں سے اندر داخل ہوں تو دونوں اطراف ڈیکسوں کے درمیان کشادہ رہداریاں تھیں دروازے مشرق کی جانب تھے اور مغرب کی طرف دیوارپر بڑابلیک بورڈ اس کے سامنے استاد کی کرسی اور پھر ایک بڑا ٹیبل اور پھر چارفٹ کے فاصلے کے بعد طالب علموں کے ڈیکس تھے۔ بورڈ کے نیچے کرکٹ کا سامان بھی پڑا ہوتا تھا جن میں ویکٹیں، بیڈز، پیڈوغیرہ ہوتے تھے ،یہ جو چار فٹ کی جگہ تھی یہ طالب علموں کی ڈنڈا پٹائی کے لیے بہت ہی موزوںتھی۔

ایک روز حسب معمول کسی بات پر اس ٹیچر نے ہمیں چند لڑکوں کے ساتھ کھڑا کردیا اُس روز کلاس میںڈنڈا دستیاب نہیں تھا تو اب انہوں نے غصے ایک وکٹ اُٹھا لی۔ پہلی باری ہماری تھی ہم نے مار کھانے کے لیے ہاتھ تو سامنے کر دئیے چونکہ ہم نے اُن کے بازو آزمائے تھے مگر آج اُن کے ہا تھ میں ڈنڈے کی بجائے وکٹ تھی لہٰذا جیسے ہی انہوں نے زور سے وکٹ ماری ہم نے غیراردی طور پر گھراہٹ میں ہاتھ ہٹا لیا ویکٹ اُن کی پوری قوت کے ساتھ ڈیسک پر لگی وکٹ کے نیچے لگی ٹین کی نو ک اُن کی ہتھیلی میں گھس گئی اور وہ تلملا کر اپنا ہاتھ پکڑ کرمجھے خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے مرغا بن جا،اور خدا نے جسے اشراف المخلوقات یعنی انسان بنایا تھا۔

وہ فوراً مرغ بن گیا اور اسی حالت میں گھبرائے ہو ئے اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان سے یہ دیکھنے کی کوشش کرنے لگا میں نے سوچا اب توکھال اور اس کے ساتھ شائد کولہوں کی ہڈیاں بھی کم سے کم تڑخ تو ضرورجائیں گی یہ چند لمحوں کی بات تھی کے آگ بگولہ ہوتے ٹیچر نے ہمیں فٹ بال تصور کرتے ہوئے زور سے اپنی پشاوری چپل والی لات گھمائی اور ہم نے غیرارادی طور پر ڈر کر خود کو ایک طرف ہٹا لیا اب کیا تھا کہ بھاری بھرکم جسم اور پرسنلٹی والا یہ ٹیچر اپنے ہی زور سے گھومتا ہوا ڈیکسوں سے ٹکراتا ہوا گرا اور میں خوف زدہ ہوکر کھڑا ہوگیا۔

ٹیچر صاحب چیتے کی طرح میری طرف لپکے تو میں کلاس کے دروازے سے بھاگا۔ جیسے ہی دروازے سے نکلا، اسکول سے نکالے جانے کے خوف سے دوسرے دروازے سے واپس کلاس کے اندر آگیا۔ ٹیچر اُسی طرح غصے سے پیچھے آئے اور میرے بورڈ کے قریب پہنچنے پر میری پیٹھ پر اسٹول دے مار، میں لڑکھڑا کر گرا اور دانتوں تلے میری زبان آگئی اور میں ڈارمہ کرتے ہوئے بے ہوش ہونے لگا۔ ٹیچر نے کالر سے پکڑ کر مجھے اُٹھایا تو اُس وقت تک میرے منہ میں کافی خون اپنے نمکین ذائقے کے ساتھ جمع ہو گیا تھا میں نے یہ خون اُلٹی کے انداز میں آواز کے ساتھ منہ سے الٹ دیا اور لڑکھڑا کرگر گیا، میں نے محسوس کیا ٹیچر کا غصہ اڑ چکا ہے، گھبر اہٹ اُن کی آواز سے ظا ہر ہو رہی تھی۔

انہوں نے جلدی جلدی میرے چہرے پر پانی ڈالا تو میں نے تڑپنا شروع کر دیا۔ اُنہوں نے جیب سے پچاس روپے نکالے ’جو اُس زمانے کی ایک بڑی رقم تھی‘ میر ے دو دوستوں کو دی اور کہا کسی کو پتا نہ چلے اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جائو۔ قصہ مختصر پھر میں نے کچھ دن چھٹی کی یعنی گھر سے اسکول آتا اور پھر ہم تین دوست پچاس روپے سے اسکول کے باہر عیش کرتے۔ زمانہ طالب علمی میں اسی اسکول میں مجھے میرے ایک اُستاد نے بتا یا کہ تم شاعر ہو اور قدرت نے تمہیں یہ صلاحیت عطا کی ہے۔

ہوا یوں کہ جب اردو کے استاد ہمیں نظمیں یا غزل پڑھاتے تو میں فوراً ساتھ ساتھ اس کی پیروڈی کر تا جا تااور قریب بیٹھے لڑکے ہنستے۔ ہمارے اردو کے ٹیچر حمید صاحب بوڑھے تھے اور ہمیشہ کرسی پر بیٹھے اس طرح جھلوتے رہتے تھے جیسے ٹرین میں سفر کر رہے ہوں۔ جب لڑکے ہنستے تو کمزور سی آواز میں خا موش کہتے اور جب بہت غصہ آتا تو ہاتھوں پر ڈنڈے مارتے طاقت کم تھی اس لیے ڈنڈے بھی ہلکے لگتے اور وہ خود بھی جلد ہانپ جاتے۔

نویں سی ہماری کلاس تھی۔ ایک بار حمید صاحب نہیں آئے تو فزکس کے نوجوان اور بہت پیاری ہر دلعزیز شخصیت کے مالک ارشد صاحب نے اُن کی جگہ اردو کی کلاس لی اور جب نظم پڑھانی شروع کی تو حسب معمول میں نے ساتھ ہی پیروڈی شروع کردی جس پر قریب بیٹھے ہوئے لڑکے ہنس دئیے۔ وہ ہم ہنسنے والے لڑکوںکے سر پر آکھڑے ہو ئے اور بہت پیار سے پو چھا کہ کیا بات ہے کیوں ہنس رہے ہو؟ اس ہنسی میں ہمیں بھی شامل کر لو۔ اس پر ایک ساتھی نے بتا دیا کہ یہ اشعار کو مزاحیہ بنا دیتا ہے۔ اس پر انہوں نے پیروڈی کو دہرانے کا کہا اور جب میں نے پیروڈی دُہرائی تو اُنہوں نے کلاس کے لڑکوںکے ساتھ قہقہ لگا یا اور کہا او تم تو ،،قدرتی شاعر ہو ، یوں ہمیں زندگی میں پہلی بار اپنے شاعر ہو نے کا ادراک ہوا۔

سنڈے من کے ہیڈ ماسٹر چوہدری ولی محمد کھیلوں کے بہت شوقین تھے اُن کے دور میں سنڈے من ہائی اسکول کی ہاکی ، فٹ بال ، کر کٹ کی ٹیموں سے صوبے کا کو ئی اسکول نہیں جیت سکتا تھا۔ چوہدری ولی محمد شام کو روزانہ اسپورٹس ٹیچر کے ساتھ خصوصاً ہاکی گراونڈ میں پریکٹس کے وقت کھیل دیکھنے خود آتے اور خود کھلاڑیوں کی کوچنگ کرتے۔ اس لیے ہاکی میں سنڈے من اسکول کی ٹیم تو قومی سطح کی ٹیموں کا مقابلہ کرتی اور اکثر صوبہ مغربی پاکستان کی سطح پر جب لاہور میں ٹورنامنٹ منعقد ہوتے تو وہ دن رات محنت کرواتے۔

جب ٹیم روانہ ہو تی تو یہاں سے خشک میوے ساتھ خرید کر دیتے اور لاہور جہاں ٹیم ٹھہرتی وہاں اُن کا ذاتی خانساماں دیسی گھی کے دو کنستر وں کے ساتھ پہنچ جاتا۔ سردیوں کے دنوں میں وہ خود لاہور جاکر ٹورنامنٹ کے میچ دیکھتے اور جب مغربی پاکستان کی سطح کا ٹورنامنٹ جیت کر ٹیم واپس آتی تو نہ صرف ایک دن کی چھٹی ہو تی بلکہ پورے اسکول کو اپنی جیب سے مٹھائی کھلاتے اوراسٹاف کو کھا نا کھلاتے۔

بچے کوئی بھی مقابلہ جیت کر آتے تو چوہدری ولی محمد یوں خوش ہوتے جیسے بچے کو نئے کھلونے مل گئے ہوں۔ کھیلوں کے فروغ ، کمروں کو سردیوں میںگرم رکھنے کے لیے اُس دور میں ضرورت کے مطابق اور بروقت محکمہ تعلیم فنڈز بھی فراہم کر دیا کرتا تھا، یہ میری زندگی کے اور شائد سنڈے من ہائی اسکول کے سنہری دن تھے۔

1983 میں ،میں بطور جے ای ٹی ٹیک ٹیچر سنڈے من ہا ئی اسکول میں آیا تو میں قومی سطح کا جا نا پہچانا شاعر ،ادیب، اور صحافی تھا۔ اُس وقت سنڈے من ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر رشید انجم تھے۔ میری ڈیوٹی اگرچہ ٹیکنیکل ٹیچر کی تھی مگر اکثر اردو ، معاشرتی علوم کے پریڈ میرے سپرد کردئیے جاتے تھے مگر یہ اچھا تھا کہ دن میں بس دو یا تین پریڈز ہوتے تھے۔ میں جب بحیثیت ٹیچر اسکول میںداخل ہوا تو پُرانے اساتذہ میں خدائے داد خان ،ڈرل ماسٹر کچکو ل علی اور ڈارائنگ ٹیچر نے مجھے پہچان لیا مگر وہ میرا نام بھول چکے تھے۔

کیٹین والے چاچا رفیق نے مجھے نام لے کر مخاطب کیا اور بہت خوش ہوا۔ اور اپنی طرف سے اچھی تواضع کی۔ اسکول میں طالب علموں کی تعداد تقریباً ہزار تک پہنچ چکی تھی، پچاس سے زیادہ ٹیچر تھے، خدائے داد کا رعب و دبدبہ اُسی طرح قائم تھا اب بریک ٹائم میں اسکول کا گراونڈ کھچا کھچ بھر جاتا۔ اُس زمانے میں بلو چستان میں بھی میٹرک تک آرٹس کی تعلیم کا رُجحان ختم ہوا، اور سائنس کی تعلیم کا مطالبہ بڑھ گیا تھا۔ صوبے میں سائنس ٹیچرز کی بہت کمی تھی۔ پھر سائنس کے شعبے میں بی ایس سی اور ایم ایس سی کے لیے دیگر سرکاری شعبوں میں ملازمتوں کے بہت سے مواقع تھے۔

اس لیے بی ایس سی ،ایم ایس سی کے حامل نوجوان درس و تدریس کے شعبے میں نہیں آتے تھے اس لیے اُس وقت حکومت نے سائنس ٹیچر کے لیے اس شعبے کو پُر کشش بنا یا اور بی ایس سی کی بنیاد پر اِن کو ڈائریکٹ بی پی ایس16 گریڈ اور اس کے ساتھ کچھ اضافی سالانہ انکریمنٹ بھی دئیے اور یوںسنڈے من میں تین فریش بی ایس سی ، سائنس ٹیچر آئے جن میں سے ایک کی عمر انیس بیس سال تھی۔ ان کی ابھی شیو بھی پوری طرح نہیں آئی تھی۔ ایک روز وہ بریک ٹائم میں ہم چند ٹیچر ز کے ساتھ کھڑے تھے۔

اُس روز اُنہوں نے اتفاق سے طلبا کے یو نیفارم کے جیسے رنگ کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی وہ سمیٹ کے بینچ نما چبوترے پر ایک ٹانگ رکھے نوے درجے کے زوایے پر تھے کہ آدھی چٹھی ختم ہو نے کی گھنٹی بج گئی اور طلبا پر حسب معمول تینوں پی ٹی ٹیچرز نے اندھا دھن لاٹھی چارج شروع کردیا کہ اچانک کچکو ل علی کا ڈنڈا ،اندھے کی لاٹھی کی طرح لہرا تا ہوا اُس اسٹوڈنٹ نما سائنس ٹیچر کے کولہے پر پڑا اور وہ ایک دلخرش چیخ کے ساتھ تلملاتے ہو ئے دوھرا ہو گیا۔ باقی ٹیچرز کے لیے یہ واقعہ کئی دنوں تک ایک لطیفہ بنا رہا۔ چند سال بعد وہ محکمہ تعلیم کو چھوڑگئے اور پھر ایک بڑے افسر بن گئے اور شائد اب بھی ہیں۔

جیسا کہ میں نے کہا اسی کی دہائی میں سنڈے من ہائی اسکول میں طلبا اور اساتذہ دونوں کی تعداد دگنی سے زیادہ ہو گئی تھی مگر معیار کافی گر گیا تھا۔ لیکن اب خوشی ہوتی ہے کہ سنڈے من ہائی اسکول صوبے کا بہترین اسکول تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں داخلے کے لیے اب بڑی بڑی سفارشیں آتی ہیں مگر پرنسپل ڈاکٹر نصیرعلی شاہ معیار پر ڈٹے رہتے ہیں۔

سنڈے من اسکول جو اب چند برسوں سے ہائر سکنڈری اسکول بن چکا ہے اس کی عمارت اور اس کے تمام کمرے نہایت خوبصورت اور سجے سجائے ہیں اور کمال یہ ہے کہ اب طالب علموں پر بغیر تشدد اور ڈنڈے کے استعمال کے سنڈے من ہائیر سیکنڈری اسکول کا ڈسپلن قابل دید ہے۔ آج جب سنڈے من ہائیر سیکنڈری اسکول جو بلوچستان کا پہلا ہائی اسکول ہے ،جسے قائم ہو ئے تقریباً 140سال کا عرصہ گذر چکا ہے تو اب جب کہ صوبے میں مقابلے کی صورت بھی کافی بلند معیار پر ہے تو ریکارڈ کے مطابق گذشتہ چند برسوں سے بلوچستان انٹرمیڈیٹ اینڈ سکنڈری ایجوکیشن بورڈ میں اس اسکول کے نتائج تناسب اور ٹاپ ٹوئیٹی کے اعتبار سے بھی بہت ہی معیاری رہے ہیں اور یہ یقینا یہاں کے پرنسپل ڈاکٹر نصیر علی شاہ اور اساتذہ کی بڑی کامیابی ہے اس وقت اس اسکول میںطا لب علموں کی تعداد تقریباً دو ہزار اور اساتذہ کی تعداد85 ہے۔

آج جب میں سنڈے من ہائر سکینڈی اسکول کی عمارت کے سامنے فاطمہ جناح روڈ سے گذرتا ہوں تو میرے قدموں کی رفتار دھیمی ہو تی ہے اور مجھے خوشی ہو تی ہے کہ اس اسکول میں تعلیمی معیار بھی بلند ہے اور ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی یہاں کے طالب علم اب صوبے میں سب سے آگے ہیں۔ یہاں ہم نصابی سر گرمیوں کے انچارج سینئر ٹیچر شفقت علی عاصمی ہیں جوخود بلوچستان کے معروف شاعر اور ادیب بھی ہیں اور یہ سنڈے من ہائیرسیکنڈری اسکول کی خوش قسمتی ہے کہ اُسے ڈاکٹر نصیر علی جیسا پرنسپل اور قابل ٹیچینگ اسٹاف میسر ہے۔

واضح رہے کہ بلوچستان کے اس قدیم تعلیمی ادارے کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں سے پاک فوج کے سابق کمانڈر انچیف سابق گورنر مغربی پاکستان سابق گورنر بلوچستان جنرل محمد مو سیٰ ، بلوچستان کے معروف سیاسی مفکر اور سابق گورنر بلوچستان اور سابق رکن قومی اسمبلی میر غو ث بخش بزنجو کے علاوہ سینکڑوں اہم شخصیات نے تعلیم پائی ۔

سر رابرٹ گرووز سنڈے من
سر رابرٹ گرووز سنڈے من کو برطانوی ہند فوج اور انتظامیہ کے اہم افسر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بلوچستان کے مقامی قبائل کو برطانیہ کے ساتھ تعاون پر آمادہ کرنے اور ان کی انگریز مخالف سرگرمیوں کے تدارک کی کامیاب حکمت عملی ان کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ رابرٹ سنڈے من 25 فروری 1835 کو ایک برطانوی جنرل رابرٹ ٹرن بُل سنڈے من کے ہاں پیدا ہوئے۔ یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریو میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1856 میں بنگال انفنٹری میں کمشن حاصل کیا۔ 1857 کی جنگ آزادی میں مقامی سپاہیوں کی بغاوت کے بعد لکھنو کو فتح کرنے والے بنگال لانسرز رجمنٹ کے ایجوٹنٹ کی ذمہ داریاں ادا کیں۔

1866 میں جب انہیں ڈیرہ غازیخان کی ضلعی انتظامیہ کا سربراہ مقرر کیا گیا تو وہیں بلوچ قبائل کے ساتھ کامیابی سے معاملات طے کرنے کی ان کی صلاحیت کھل کر سامنے آئی۔ سنڈے من وہ پہلے افسر تھے جنہوں نے قبائلی علاقوں میں عدم مداخلت کی جاری پالیسی کے برعکس برطانوی اثر و رسوخ کو قبائلی حدود کے پار لے جانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ فروری 1871 میں مٹھن کوٹ کے مقام پر پنجاب اور سندھ صوبوں کی انگریز حکومتوں کے نمائندوں کے ساتھ ایک کانفرنس کے نتیجے میں انہیں انگریزوں کے خلاف کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں برسر پیکار مری، بگٹی اور مزاری قبائل سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انگریزوں کے غلبے کے بعد کوئٹہ شہر اور چھائونی کی تعمیر و ترقی میں بنیادی کردار اس انگریز افسر کا تھا۔

1876 میں نواب سر امام بخش خان مزاری آف رجحان کی مدد سے انہوں نے خان آف قلات کے ساتھ مذاکرات کرکے معاہدہ قلات کیا۔

1877 میں انہیں بلوچستان میں گورنر جنرل کا ایجنٹ مقرر کردیا گیا۔ قبائل کے ساتھ اختیار کی جانے والی ان کی حکمت عملی کو سنڈیمنائزیشن (Sandemanization) کا نام دیا جاتا ہے۔ بلوچ قبائل کے ساتھ اختیار کی جانے والی حکمت عملی کی وجہ سے 1878 میں دوسری افغان جن میں انگریزوں کو غیر معمولی فائدہ حاصل رہا اور انگریزوں کا فوجی رسل و رسائل کا نظام کامیابی سے چلتا رہا۔ سنڈیمن کا 29 جنوری 1892 کو ریاست لس بیلہ کے صدر مقام بیلہ میں انتقال ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔