خیبرپختون خوا میں اُردو کے اثرات

نوید جان  اتوار 13 دسمبر 2020
صوبے کے رہنے والوں کو اپنی زبانوں کی طرح قومی زبان سے بھی پیار ہے

صوبے کے رہنے والوں کو اپنی زبانوں کی طرح قومی زبان سے بھی پیار ہے

یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ الفاظ کے حوالے سے اردو اور خیبرپختون خوا کی دو بڑی زبانوں پشتو اور ہندکو میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔

خصوصاً پشتو کے اردو زبان کے ساتھ ہم رنگی رکھنے والے الفاظ سے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صوبے کی نمائندہ زبان پشتو بولنے والا اگر اردو میں بات کرتا ہے تو وہ اجنبی نہیں لگتا، کیوں کہ اس کی اپنی ماں بولی پشتو میں ایسے متعدد الفاظ موجود ہیں جو اردو زبان نے اپنے دامن میں سجا رکھے ہیں جو اردو اور پشتو کے درمیان اجنبیت کے امکان کو ختم کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اس اعتبار سے اردو کا دائرہ بطور زبان پشتونوں کے تمام علاقوں تک پھیلا ہوا ہے، عام لحاظ سے پشتونوں کے کسی بھی علاقہ میں اردو کوئی ایسی زبان نہیں کہ جہاں اردو میں بات کی جائے تو وہاں کے لوگ یہ نہ سمجھ سکیں کہ مخاطب کیا کہہ رہا ہے بلکہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والا پڑھے لکھے آدمی سے لے کر ایک دہقان تک نہ صرف مخاطب کے مفہوم کو سمجھ لیتا ہے بلکہ وہ اپنی مقامی لہجے ہی میں سہی جواب اردو میں دے دیتا ہے۔

جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اردو کے اثرات تمام پشتون علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں اور یہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ اردو ان کے لیے ناقابل فہم ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو ہماری ایسی قومی اور شستہ تہذیبی زبان ہے جس میں بات کرنا عام فہم انداز میں اس عندیے کا اظہار ہے کہ پڑھے لکھے اور تمدن شناس لوگوں کا ملکی سطح پر تعارف اس سے مشروط ہے کہ کون اردو میں تکلم کی استعداد رکھتا ہے۔ سو اس لحاظ سے خیبرپختون خوا کے کسی بھی علاقے کا کوئی بھی باشندہ ایسا نہیں جو اگر پوری فصاحت وبلاغت کے ساتھ نہ سہی قدرے کلام کی فہمائش کی حد تک اردو کو ضرور سمجھتا بھی ہے اور اردو میں بات بھی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں شمالی علاقہ جات کے باشندوں نے تو صوبے اور ملک کے دوسرے لوگوں کے ساتھ روابط کے لیے اردو ہی کو اپنی مادری زبان کے بعد دوسری حیثیت دے رکھی ہے جب کہ قومیت کے اظہار میں سب کے سب اردو کو اولیت دیتے ہیں۔

خصوصاً چترال کا اجتماعی معاشرہ ایسا ہے کہ جہاں کے لوگ اردو میں تکلم کرنے میں تہذیبی اور تمدنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کی اکثر علمی وادبی تقاریب میں اردو زبان ہی کو اپنایا جاتا ہے۔ شمالی علاقہ جات کے تمام ادبی حلقوں میں اردو کے فصاحتی انداز کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ چترال کے بازاروں میں لوگوں کو کاروباری مشاغل میں بھی اردو میں لین دین اور خریدوفروخت میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ اسی طرح چترال کی تاریخ وثقافت سے متعلق اب تک جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں تاریخ چترال از مرزا محمد غفران اور ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی کی تصانیف کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، یہ اردو میں ہیں، اسی طرح غلام محمد کی تصنیف ’’چترال کی لوک کہانیاں‘‘ بھی اردو میں لکھی گئی ہے۔

چترالی موسیقی پر مشتمل تصنیف ’’آلات موسیقی اور فن کار‘‘ شیرولی خان نے اردو میں لکھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی تحقیقی کام ہو رہا ہے، جو اردو ہی میں ہے۔ ہرچند کہ چترال کی مقامی زبان کھوار میں بھی کام جاری ہے مگر احاطہ اردو میں ہی ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ چترال میں اردو کے اثرات کتنے گہرے ہیں۔ چند ہفت روزے، اخبارات اور رسائل بھی اردو زبان میں شایع ہورہے ہیں۔ یہی حال ملاکنڈڈویژن کے علاقہ سوات کا بھی ہے، سوات کی تاریخ وثقافت سے متعلق جتنا بھی مواد دست یاب ہے وہ زیادہ تر اردو میں ہے۔

اسی طرح فضل ربی کی تصنیف ’’سوات تاریخ کے آئینے میں‘‘ بھی اردو میں ہے،’’حسین وادی سوات ‘‘ اردو میں ہے، کالام کوہستان جو سوات کوہستان کا مرکزی خطہ ہے اس سے متعلق کتاب پرویش شاہین نے اردو میں لکھی ہے، جب کہ ہزارہ کوہستان سے متعلق ’’اباسین کوہستان‘‘ کتاب کو بھی پرویش شاہین نے اردو کا پیراہن پہنایا ہے۔

ہزارہ کے زیادہ تر علاقوں میں ہزارہ جاتی ہندکو زبان رائج ہے جو ہزارہ کی مقامی زبان ہے اور مختلف علاقوں میں لہجوں کے اختلاف کے ساتھ ہزارہ جاتی ہندکو بولی جاتی ہے، مگر ہزارہ میں ادبی زبان اردو ہی ہے۔ یہاں کے لوگوں نے جو ادبی تخلیقات کی ہیں تقریباً80 فی صد اردو میں ہیں۔ اس وقت ہزارہ کے صدرمقام ایبٹ آباد سے زیادہ تر روزنامے، اخبارات اردو زبان میں ہی چھپ رہے ہیں، کاروباری مشاغل میں بھی اردو کو فوقیت حاصل ہے۔

شیربہادرخان پنی نے ضخیم کتاب ’’ہزارہ کی تاریخ‘‘ اردو ہی میں لکھی ہے،’’تاریخ تنول‘‘ جو تنولی قوم سے متعلق ہے اردو میں فدامحمد نے تحریر کی ہے، ایبٹ آباد اور دیگر مقامات پر ادبی، سماجی اور سیاسی تقاریب اردو ہی میں منعقد ہوتی ہیں۔

مردان وصوابی سے متعلق بھی جو تاریخی اور ثقافتی مواد دست یاب ہے وہ زیادہ تر اردو میں ہے۔ صوابی کے قدیم ترین شہر لاہور سے متعلق تاریخ ، میرسید بخاری نے اردو میں لکھی ہے، مردان کے نام ور دانش ور لکھاری ڈاکٹر ہمایوں ہمدرد اردو کے کالم نگار ہیں، جنوبی اضلاع کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اہل قلم نے اپنے اپنے علاقوں سے متعلق بہت کچھ اردو ہی میں لکھا۔ پروفیسر پریشان خٹک جو نام ور پشتون ادیب، شاعر، دانش ور ہونے کے ساتھ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیںْ

ان کی بہت سی کتابیں اردو میں ہیں، خاص کر ’’پشتون کون‘‘ جس نے شہرت دوام حاصل کرلی ہے، اردو میں ہے جس میں پشتونوں کی اصل نسل کے بارے میں پروفیسر موصوف نے بست وکشاد کے ساتھ لکھا ہے۔ اسی طرح عصرحاضر کے عظیم ادیب، دانش ور اور کالم نگار سعداللہ جان برق بھی اپنے خیالات کو اردو ہی کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔

اسی طرح بنوں میں اردو میں نکلنے والے اخبارات ورسائل کے متعدد نمائندے ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان جہاں سرائیکی بولی جاتی ہے، اس زبان سے متعلق وہاں کے لکھاری بہت محنت اور کوشش بھی کررہے ہیں لیکن زیادہ تر مواد ہمیں اردو میں دست یاب ہے۔ وہاں کے لوگوں کی رابطے کی زبان اردو ہی ہے۔ گومل یونی ورسٹی میں اردو ہی میں پڑھایا جا رہا ہے۔ ڈیرہ کے نصیر سرمد اور دیگر اہم لکھاری اردو میں بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ مختلف علمی، ادبی اور ثقافتی تقاریب کا انعقاد اردو زبان ہی میں ہوتا ہے۔

کوہاٹ کی ادبی اور ثقافتی محافل اردو ہی میں ہوتی ہیں۔ احمد فراز جو بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر وادیب تھے ان کا تعلق کوہاٹ ہی سے ہے۔ ان کا سارے کا سارا کلام اردو میں ہے۔ ان کے والد مرحوم آغا برق کوہاٹی کا کلام بھی اردو میں ہے۔ میر عبدالصمد نام ور دانشور گزرے ہیں انہوں نے اردو ہی میں طبع آزمائی کی۔ وہ بہت ہی شستہ اردو بولتے تھے۔ ان کی شہرت یافتہ تصنیف ’’خوشحال واقبال ‘‘ ہے۔ احمد پراچہ نے تاریخ کوہاٹ اردو ہی میں تحریر کی ہے۔ کوہاٹ سے نکلنے والا رسالے ’’ہمدم‘‘ نے بڑی شہرت حاصل کی وہ بھی اردو میں چھپتا تھا۔

کوہاٹ میں اگرچہ مقامی باشندوں کی اپنی ہی ہندکو سے مماثلت رکھنے والی زبان کوہاٹی، ہندکو زبان ہے اس کے باوجود نہ صرف رابطے کی زبان کے طور پر لوگ اردو بولتے ہیں بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کوہاٹ کے گھرانوں میں بچوں کے ساتھ اردو میں بول چال ہوتی ہے۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کوہاٹ کے مضافات میں کوہاٹی زبان کے بعد دوسری سب سے بڑی مستعمل زبان اردو ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوہاٹ کی متعدد ایسی شخصیات ہیں جو ماضی میں تعلیم وادب کے میدان میں اعلیٰ مقام ومرتبہ پر فائز رہی ہیں اور موجودہ عہد میں بھی اس مرتبے کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ کوہاٹ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ سرکاری حیثیت میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ ان کے گھروں میں مقامی زبان کوہاٹی کے علاوہ اردو ہی رائج ہے اور بڑی شستہ اردو بولی جاتی ہے۔

اسی طرح اگر خیبرپختون خوا کے دارالحکومت پشاور کی بات کی جائے تو اس شہر کو قدیم زمانے سے اہم حیثیت حاصل رہی ہے اور تقریباً ہر مورخ نے پشاور کی تاریخی اور ثقافتی حیثیت کا حروفِ جلی کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔ پشاور کا ایک نام گندھارا بھی رہا ہے۔ جب کہ گندھارا سنسکرت زبان کا دیا ہوا نام ہے جس کے معنی ومفہوم خوشبو کا خطہ ہے۔

یہ اس لیے کہ یہ باغات کی سرزمین رہی ہے۔ یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے پشاور کے باشندوں کو گندھاریون غالباً اسی نام کی مناسبت سے لکھا ہے۔ مہاراجا کنشک کے دور میں تو پشاور کو باضابطہ طور پر اس پورے گندھارا (خیبرپختون خو ا) کا دارالحکومت لکھا گیا ہے اور اس کے بعد عہد بہ عہد پشاور کو یہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہاں کے باشندے ہر دور میں تہذیب وتمدن سے متعلق اعلیٰ روایات کے امین رہے ہیں۔ باہر سے آنے والی اقوام نے یہاں آکر پشاور کے باشندوں کے ساتھ گھل مل کر وہی عادات واطوار اپنائیں جو پشاور کے خالص پشاوری باشندوں کا خاصہ رہی ہیں۔

پشاور کی مخصوص ثقافتی اور تاریخی حیثیت کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہاں کے باشندوں کی لسانی حیثیت بھی ہے۔ پشاور کے مقامی لوگوں کی اپنی اصلی اور نسلی زبان ہندکو ہے اور ہندکو وہی قدیم زبان ہے جسے سنسکرت زبان کے گرائمر کے موجد ’’نیدت‘‘ یعنی پانینی نے ہنیان کہا ہے اور جسے گندھارا کی دو نمائندہ زبانوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ پشاور میں ہندکو کے ساتھ اپنے اپنے عہد میں دیگر زبانوں کا بھی اثر رہا ہے جن میں فارسی زبان کی اثرآفرینی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ مغل اور مغلوں کے بعد درانیوں کے دور تک یہاں کی شاہی اور سرکاری زبان فارسی رہی ہے۔

اس لیے یہاں کے لوگ اب تک اپنی ہندکو زبان کے ساتھ فارسی بڑی روانی کے ساتھ بولتے ہیں، مگر اردو نے یہاں قدم رکھا تو پشاور کے ہندکو داں لوگوں نے اردو کی تہذیبی اور تمدنی حیثیت کو بخوبی نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اپنی تہذیبی حالت کی مسابقت کے پیش نظر عام بول چال اور لین دین میں بھی اسے قبول کیا اور اب تو یہ حال ہے کہ پشاور میں مقیم ہندکوداں اور پشتو بولنے والے دونوں گھرانوں کے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ اردو میں بول چال پر فخر کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پشاور کے مضافات میں 80 فی صد بچوں کو ابتدا ہی سے اردو کی طرف راغب کیا جاتا ہے جس سے اردو پشاور کے عام گھرانوں کی زبان ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی مشاہدے اور تجربے میں آیا ہے کہ پشاور کے وہ گھرانے جہاں پشاور سے باہر ہزارہ، ڈیرہ، کوہاٹ وغیرہ سے شادیاں ہوئی ہیں وہاں تو اردو کو مروج کرلیا گیا ہے یوں گھرانوں کی سطح تک اردو کو رابطے کی زبان کے طور پر اختیار کرلیا گیا ہے۔

پشاور میں سرکاری سطح پر دفاتر میں جو زبان عموماً استعمال ہوتی ہے وہ بھی اردو ہی ہے۔ یہاں جتنے بھی اخبارات جاری ہوتے ہیں سب کے سب اردو اخبارات ہیں صرف دو تین پشتو اخبارات شایع ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہفت روزہ اور ماہانہ رسائل بھی زیادہ تر اردو میں ہی شایع ہوتے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں کی سطح تک ذریعہ تعلیم اردو ہی ہے۔ روزانہ لاکھوں کی تعداد میں جو چھپائی ہوتی ہے وہ اردو ہی میں ہے، جس کی فی صد شرح تقریباً90 ہے۔

ان حالات کے پیش نظر یہ کہنا حقیقت کے قریب تر ہے کہ صوبے کے دارالحکومت میں اردو دانی کا معیار 90 فی صد ہے جس میں تمام مقامی زبانیں اور بولیاں بولنے والے لوگ شامل ہیں۔ یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ صوبائی دارالحکومت میں اردو کے اثرات نمایاں ہیں اور لوگ اردو کو ایک تہذیبی اور تمدنی زبان کے طور پر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی اردو برتنے والوں کو اپنی قومیت کا بھی احساس ہے، کیوں کہ اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہے جس نے ملک کے ہر حصے کے باشندے کو ایک قوم کے دھاگے میں پرو رکھا ہے۔

کسی بھی قوم کو ایک دھارے میں رہنے کے لیے ایک زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے جو قومی وحدت کی علم بردار ہوتی ہے۔ پاکستانی قومیت کے لیے اردو ہی قومی شناخت ہے جس کا احساس صوبے کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے باشندے کو بخوبی ہے اور اپنی مقامی زبان سے جتنی محبت ہے اسی قدر انہیں اردو کے ساتھ قومی زبان کے طور پر بھی پیار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔