نَو منتخب امریکی صدر کے چند انقلابی اقدامات

تنویر قیصر شاہد  پير 11 جنوری 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

نَو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن ( جو 20جنوری 2021 کو صدارت کا حلف اٹھا رہے ہیں) کم از کم اپنے ملک وقوم کی حد تک صحیح معنوں میں مساوات پسند ثابت ہو رہے ہیں۔ کملا ہیرس نامی ایک ’’رنگدار‘‘ خاتون کو اپنی نائب صدر بنانا جو بائیڈن کی اِسی مساوات پسندی کا بین ثبوت ہے۔

یہ منظر بعض نسل پرست گورے امریکیوں کے اعصاب پر بوجھ بن رہا ہے لیکن نَو منتخب امریکی صدر نے غیر گوری کملا ہیرس کو اپنا نائب بنا کر ساری دُنیا کو برابری کا درس دیا ہے ۔ ابھی سفید فام امریکی اس ’’صدمے‘‘ سے باہر نہیں نکلے تھے کہ جو بائیڈن نے ایک اور انقلابی قدم اُٹھالیا ہے ۔ جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ لائیڈ آسٹن اُن کے وزیر دفاع ہوں گے۔

67 سالہ لائیڈ آسٹن سیاہ فام امریکی ہیں اور ابھی چار سال پہلے ہی امریکی فوج سے جرنیل کے عہدے سے ریٹائر ہُوئے ہیں۔بہت سے امریکی جوبائیڈن کے اس فیصلے پر حیران ہیں۔ اگر امریکی کانگریس لائیڈ آسٹن کے تقرر کی توثیق کر دیتی ہے تو مسٹر آسٹن کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوگا کہ وہ امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام وزیر دفاع ( ڈیفنس سیکریٹری) ہوں گے۔

جو بائیڈن نے لائیڈ آسٹن کے نام کا اعلان کرتے ہُوئے اُن کی فوجی خدمات، شخصیت اورمضبوط کردار کی شاندار الفاظ میں تعریف و تحسین کی ہے ۔مگر امریکی قانون کہتا ہے کہ کسی بھی ریٹائرڈ امریکی فوجی افسر کو وزارتِ دفاع کے ممتاز عہدے پر فائز نہیں کیا جا سکتا جب تک اُسے ریٹائر ہُوئے سات سال کا عرصہ نہ گزر چکا ہو ۔ اس اصول کے مطابق لائیڈ آسٹن کو امریکی وزیر دفاع کے ممتاز ترین عہدے پر متمکن نہیں کیا جا سکتا۔

امریکی تجزیہ نگاروں کا مگر کہنا ہے کہ جو بائیڈن اس قانون کو خاص طور پر لائیڈ آسٹن کے لیے نرم کردیں گے ، جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بطورِ صدر میرین جنرل (ر) جیمز میٹس کو اپنا وزیر دفاع بنانے کے لیے اس قانون میں نرمی کی تھی ۔ جو بائیڈن نے امریکی جریدے ’’ دی اٹلانٹک‘‘ میں ایک آرٹیکل لکھتے ہُوئے اس اُمید کا اظہار کیا ہے :’’ رواں لمحات میں امریکا اور امریکی قوم کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے ، مجھے اُمید ہے کہ کانگریس دل بڑا کرکے جنرل (ر) لائیڈ آسٹن کے تقرر کی توثیق کر دے گی کہ آسٹن تمام درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ آخر جیمز میٹس کو بھی تو کانگریس نے رعائت دی تھی۔‘‘

واقعہ یہ ہے کہ سیاہ فام امریکیوں نے جدید امریکی معاشرے میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے بڑے کشٹ کاٹے اور سفید فام امریکیوں کے اعصاب شکن مظالم برداشت کیے ہیں۔ یہ مظالم صدیوں پر محیط ہیں ۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ امریکی ائر فورس کا سربراہ کوئی سیاہ فام امریکی بھی ہو سکتا ہے ۔

امریکی میڈیا میں یہ فیصلہ حیرت و استعجاب مگر مسرت سے سنا گیا کہ امریکی ائر فورس کا نیا سربراہ ایک کالا امریکی لگا دیا گیا ہے ۔ اس سیاہ فام خوش بخت کا نام جنرل چارلس براؤن جونئیر ہے۔انھوں نے جنرل ڈیوڈ گولڈ فائین کی جگہ سنبھالی ہے۔ یہ دراصل سیاہ فام امریکیوں کی امریکا کے لیے صدیوں پر پھیلی محنت ومظلومیت کا ثمر ہے ۔ جنرل چارلس براؤن جونیئر کے تقرر پر ممتاز امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اپنے طویل نیوز آرٹیکل میں اس سیاہ فام جرنیل کودل کھول کر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

امریکی صدر نے بھی ایک ٹویٹ میں جنرل چارلس براؤن کے تقرر کی تعریف کی اور کانگریس کی منظوری کو سراہا ۔نَو منتخب امریکی صدر ، جو بائیڈن ، نے اپنا وزیر داخلہ(ڈیب ہالندے) بھی غیر گورا چُن کر منفرد ریکارڈ قائم کیا ہے۔یہ Native Americanخاتون ہیں۔

امریکی تاریخ میں پہلی بار کسی نیٹو امریکن کو وزارتِ داخلہ کا قلمدان سونپا گیا ہے ۔ سب سے حیرت انگیز ( اور ہم پاکستانیوں کے لیے پریشانی کی) بات یہ ہے کہ نَو منتخب امریکی صدر، جو بائیڈن ، نے 25اہم ترین سرکاری پوسٹوں پر ایسے افراد کو نامزد کیا ہے جو بھارتی نژاد امریکی ہیں ۔

آج سیاہ فام امریکی بدل رہے ہیں۔ خبر آئی ہے کہ معروف ترین امریکی ملٹی نیشنل فیشن میگزین Harper Bazarنے اپنی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام امریکی خاتون کو اعلیٰ ترین یعنی ایڈیٹر انچیف کے عہدے پر تعینات کر دیا ہے ۔اس خوش قسمت سیاہ فام خاتون کا نام سمیرا نصیر ہے اور وہ ایک لبنانی نژاد امریکی مسلمان کی بیٹی ہیں ۔

سمیرا نصیر صاحبہ نے ’’ہارپر بازار‘‘ میگزین کمپنی کے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر جو ویڈیو پیغام ریکارڈ کروایا ہے ، وہ سُن کر دل بھر آتا ہے ۔ امریکی سرزمین پر اگرچہ سیاہ فاموں پر بے پناہ اور متنوع مظالم ہُوئے ہیں ، اُن کا ہر رُخ سے اور زندگی کے ہر شعبے میں استحصال کیا گیا ہے لیکن اِسی امریکا میں میرٹ کا بھی جھنڈا بلند ہے ۔ اسی پرچم تلے سمیرا نصیر کو اُن کی محنتوں کا صلہ ملا ہے ۔ اس کا اقرار اُن کے ویڈیو پیغام میں بھی ملتا ہے جو لاتعداد کالے امریکیوں کے لیے حوصلہ و ہمت افزائی کا سبب بھی بنا ہے ۔

امریکا اور مغربی یورپ میں صدیوں سے زیر استبداد اور مظلومیت کے شکار کالوں کی محنتوں کو تسلیم کیا جارہا ہے ۔ سیاہ فاموں پر ظلم کرنے والوں کی یادگاریں ، جو ابھی حال تک اہلِ مغرب کے لیے فخر و بالا دستی کی علامتیں تھیں، مٹائی اور گرائی جا رہی ہیں۔

مثال کے طور پر نیویارک (مین ہیٹن)میں واقع ’’نیویارک نیچرل ہسٹری میوزیم‘‘ کے باہر عشروں پرانے جنرل روزویلٹ کا مجسمہ بھی ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ گھوڑے پر سوار سفیدفام آقا روزویلٹ کے اس مجسمے کے دائیں طرف ایک برہنہ سیاہ فام نوجوان کھڑا دکھایا گیا ہے اور بائیں جانب ننگے بدن مقامی امریکی(ریڈ انڈین)۔ واشنگٹن میں وہائیٹ ہاؤس کے سامنے ایستادہ سابق امریکی صدر، اینڈریو جیکسن،کے مجسمے پر بھی کسی نے غلاظت مل دی ہے۔

یہ امریکی صدر بھی کالے افریقیوں کی ظالمانہ تجارت میں ملوث تھے۔پچھلے سال برطانیہ کے دو بڑے شہروں میں دو اہم ترین تاریخی شخصیات کے مجسموں کا گرا دیا جانا بھی اہم سنگِ میل ہے ۔ دونوں مجسمے اُن سفید فاموں کے تھے جنھوں نے کئی سو سال پہلے سیاہ فاموں کو غلام بنایا تھا۔پہلا مجسمہ Robert Milliganکا تھا جو لنڈن میوزیم کے سامنے برسہا برس سے نصب تھا۔

مظاہرین نے لندنی عجائب گھر کے سامنے نصب سفید فام رابرٹ ملیگن کا مجسمہ توڑ کر زمین بوس کر دیا ، اس لیے کہ یہ شخص صدیوں پہلے افریقہ سے سیاہ فاموں کو اغوا کرتا اور پھر ان بے کسوں کو امریکا اور مغربی ممالک کی منڈیوں میں فروخت کر دیتا تھا۔ اس شخص کے اس تاریخی مجسمے کی باقیات بھی اب لندن انتظامیہ نے وہاں سے ہٹا دی ہیں۔

دوسرا مجسمہ لندن کے دوسرے بڑے شہر ، برسٹل ، میں نصب تھا۔ یہ مجسمہ ایڈورڈ کولسٹن(Edward Colston)کا تھا ۔ یہ بھی سیاہ فام غلاموںکی تجارت کرتا تھا اور اس ’’نفع بخش‘‘ مگر ظالمانہ تجارت سے اس شخص نے بے پناہ دولت کمائی اور پھر یہ برطانوی پارلیمنٹ کا رکن بھی بن گیا۔ظلم اور سفید فاموں کے فخر و غرور کی یہ نشانی بھی اب معدوم ہو چکی ہے ۔ اب ظالم ایڈورڈ کولسٹن کی جگہ ایک سیاہ فام برطانوی خاتون شہری Jen Reidکا مجسمہ نصب کر دیا گیا ہے۔

اس بہادر خاتون نے حالیہ ایام میں برطانیہ بھر میں سفید فاموں کے مظالم اجاگر کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔ سیاہ فام امریکیوں اور مغربیوں کو محنت اور صبر کا پھل مل رہا ہے۔ نامزد امریکی وزیر دفاع،جنرل لائیڈ آسٹن، بھی اِنہی خوش بختوں کی نئی فہرست میں شامل ہُوئے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔