بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی ملکی استحکام کے لئے خطرناک ہے

ارشاد انصاری  بدھ 13 جنوری 2021
مولانا فضل ارحمٰن اور مریم نواز کی توپوں کا رخ تو پہلے ہی مقتدر قوتوں کی جانب تھا۔

مولانا فضل ارحمٰن اور مریم نواز کی توپوں کا رخ تو پہلے ہی مقتدر قوتوں کی جانب تھا۔

 اسلام آباد:  اپوزیشن اتحادی اور حکومتی اتحاد کے درمیان سیاسی میدا ن میں جاری چومکھی لڑائی حتمی مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور ملک میں آج کل ایک سیاسی طوفان برپا ہے جہاں اپوزیشن جماعتوں کی احتجاجی تحریک جاری ہے تو مقابلے میں وزیراعظم نے بھی جلسوں کا جواب جلسوں سے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

یعنی اب جس شہر میں اپوزیشن کا جلسہ ہوگا، وہیں حکومت بھی بھرپور پاور شو کرے گی جس سے ٹکراو کا خدشہ ہے، دونوں طرف سے لہجے تلخ ہوتے جا رہے ہیں جس کی جھلک پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ، پیپلز پارٹی کے رہنما  بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن)کی رہنما مریم نواز کے حالیہ بیانات و تقاریر میں واضح دکھائی دی ہے۔

مولانا فضل ارحمٰن اور مریم نواز کی توپوں کا رخ تو پہلے ہی مقتدر قوتوں کی جانب تھا لیکن بلاول بھٹو زرداری نے بھی مالا کنڈ میں اپنے مخصوص انداز میں تنقید کے نشتر چلائے ہیں  بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جب عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ وزیراعظم کون ہو گا تو پھر مستقبل روشن ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ  یہ تبدیلی والے منافق اور دھوکے باز ہیں، جو وعدہ کیا دھوکا نکلا میں عوام سے وعدہ کر رہا ہوں کہ ہم مل کر ان کٹھ پتلیوں کو بھگائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی صرف اس لیے ہے کہ ہم پر سلیکٹڈ مسلط کیا گیا ہے جسے معیشت چلانے کا پتہ نہیں ہے، جبکہ بٹ خیلہ جلسے سے خطاب میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ناجائز حکومت کو سہارا دینے والے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، قوم کے ووٹ پر ڈاکہ ڈال کرآنے والے  ناجائز حکمران کو سہارا دینا جرم ہے، ملک کی معیشت بی آرٹی کی طرح تباہ ہو گئی ہے، بتایا جائے فارن فنڈنگ کیس کو کیوں کئی سالوں سے لٹکایا ہوا ہے؟ مدعی چیخ رہا ہے کہ بھارت اور اسرائیل سے فنڈنگ کا سارا حساب اس کے سامنے ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عوام کا سیلاب نالائق حکمرانوں کو بہا کر لے جائے گا، قوم اپنی امانت واپس لے کر رہے گی، ہم خون کی سیاست نہیں مانتے، ہم آپ کو آپ کی ذمہ داری کااحساس دلانا چاہتے ہیں۔ یہی نہیں مولانا فضل الرحمٰن نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے  پی ڈی ایم  کی پنڈی آمد پر چائے پانی کی پیشکش پر بھی ردعمل ظاہر کیا ہے ۔

سیاسی بیان بازی اپنی جگہ لیکن یہ قومی  یکجہتی اور ملکی سالمیت و خودمختاری کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں ملکی اداروں کو متنازعہ بنانے سے اجتناب کریں اور اپنی لڑائی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاسی انداز میں لڑیں  اور اداروں کو اپنی لڑائی میں نہ گھسیٹیں ۔ سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

کیونکہ جتنا اس حکومت کے دور میں اداروں کو کھل کر سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے شائد اس سے پہلے اسکی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر بنا کر اپوزیشن کو بھرپور جواب دے  اور خود کو ریسکیو کرے اور  ڈی جی آئی ایس پی آر کی  جانب سے بھی پریس کانفرنس میں سیاسی جماعتوں پر یہی بات واضح کی گئی ہے کہ  فوج کو سیاسی معاملات میں نہ آنے کی ضرورت ہے، نہ گھسیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے، کسی سے کوئی بیک ڈور رابطے نہیں، ہمیں اس معاملے سے دور رکھا جائے۔ پریس کانفرنس کے دوران پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان سے متعلق سوال پر ترجمان پاک فوج کا کا کہنا تھا کہ ان کے راولپنڈی آنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، وہ آنا چاہتے ہیں تو آئیں ان کی دیکھ بھال کریں گے، چائے پانی پلائیں گے۔

انکا کہنا تھا کہ فوج پر تنقید اور الزامات میں کوئی حقیقت ہو تو جواب دیں، ان چیزوں میں ملوث ہونا نہیں چاہتے، جو ہمارا کام ہے وہ کریں گے۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھاکہ سیاسی معاملات پر تبصرے سے گریز کرتا ہوں لیکن یہ نہیں کہا کہ فوج مخالف بیانات سے تشویش نہیں، جو بھی بات چیت کی جا رہی ہے، اس کے باجود اپنا کام کر رہے ہیں، فوج کا مورال بلند ہے، جس نوعیت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں ان میں کوئی وزن نہیں ، فوج حکومت کا ذیلی ادارہ ہے، جو باتیں کی جا رہی، اس کاجواب حکومت پاکستان نے اچھے طریقے سے دیا ہے لہٰذا فوج کوسیاسی معاملات میں آنے کی ضرورت نہیں ۔

دوسری طرف ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اپنے مستقبل کی بقاء کیلئے کسی بھی حد تک جانے پر تلی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں ، مارچ 2021 میں ہونے والے سینٹ الیکشن سے قبل اپوزیشن کی احتجاجی تحریک انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اپوزیشن کے پاس ملکی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کیلئے یہ آخری موقع ہے۔

سینیٹ الیکشن کے بعد اپوزیشن کا ایوان بالا سے بالکل ہی صفایا ہو جائے گا اور اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ شاید تبدیلی سرکار صرف یہی پانچ سال نہیں بلکہ اگلے پانچ سال بھی اپوزیشن کے سینے پر مونگ دلے گی اسی خدشے کو لے کر  پی ڈی ایم کا ملک بھر میں جاری جلسوں کا سلسلہ اب  لانگ مارچ اور دھرنے میں تبدیل ہونے جا رہا ہے تو دوسری طرف پارلیمنٹ کے اندر بھی حکومت کو گرانے کیلئے اپوزیشن کا گیم پلان حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔

سیاسی پنڈتوں کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری باریک گیم ڈالنے کی تیاری مکمل کر چکے ہیں اور اس کیلئے وہ نہ صرف میاں نوازشریف کو اعتماد میں لے چکے ہیں بلکہ مولانا فضل الرحمٰن اور دوسرے اتحادیوں کو بھی آن بورڈ لے چکے ہیں یہی نہیں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اب انتخابی اتحاد میں تبدیل ہونے جا رہا ہے، آنے والے ضمنی انتخابات میں اور پھر مارچ میں متوقع سینٹ کے انتخابات میں بھی یہ اتحاد مل کر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے حکومت سے مقابلے میں میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ اس کیلئے بھی سیاسی شطرنج کے ماہر سمجھے جانے والے سیاسی کھلاڑی آصف علی زرداری  کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی نوازشریف سے  ملاقاتوں کو بھی اسی سلسلہ کی کڑی قرار دے رہے ہیں۔ اپوزیشن ا ور حکومت کے درمیان جاری لڑائی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو اسی مہینے نہیں تو اگلے مہینے کے وسط تک سامنے آجائے گا لیکن اپوزیشن اور حکومت کی اس سیاسی لڑائی میں عوام  بری طرح پس رہی ہے، ملکی معیشت پہلے ہی زوال پذیر تھی کورونا نے مزید جلتی پر تیل کا کام دکھایا اور رہی سہی کسر حکمرانوں کی ناتجربہ کاری اور سیاسی عدم استحکام نے پوری کردی ہے۔

پہلے کپتان کی جانب سے 2020 کو ترقی کا سال قرار دیتے ہوئے نوکریوں کی نوید سنائی گئی  اور اب 2021 کو ترقی کا سال قرار دیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی حکومت نے سال کے آغاز پر ہی عوام کو بجلی و پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرکے کمر کسنے کا پیغام بھی دیدیا، اوپر سے خود حکومتی ادارے شماریات بیورو کی جاری کردہ سال کے پہلے ہفتے بارے مہنگائی کی رپورٹ نے عوامی بلڈ پریشر مزید بڑھا دیا کیونکہ اس رپورٹ کے مطابق نئے سال کے آغاز پر ہی مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے اور اب عوام میں بد اعتمادی کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ کوئی یقین کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہا ہے اور گھبراہٹ کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔