- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3سال کا نیا پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
- صنعتوں، سروسز سیکٹر کی ناقص کارکردگی، معاشی ترقی کی شرح گر کر ایک فیصد ہو گئی
- جواہرات کے شعبے کو ترقی دیکر زرمبادلہ کما سکتے ہیں، صدر
- پاکستان کی سیکنڈری ایمرجنگ مارکیٹ حیثیت 6ماہ کے لیے برقرار
خلیجِ بنگال میں روزانہ پلاسٹک کے تین ارب ٹکڑے جمع ہورہے ہیں
بہار: میگھنا اور برہما پترا دریا سے تشکیل پانے والے دریائے گنگا جب خلیجِ بنگال میں گرتا ہے تو روزانہ اپنے ساتھ انتہائی باریک پلاسٹک کے تین ارب سے زائد ذرات بھی سمندر تک پہنچا دیتا ہے۔
ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ ان میں پلاسٹک کی 90 فیصد مقدار کا تعلق لباس کے ریشوں، سے ہیں جن میں ایکریلک اور ریان سرِفہرست ہیں۔ یہ تمام پلاسٹک کپڑا سازی میں استعمال ہوتے ہیں یا پھر ان کا اہم حصہ بھی ہیں۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے خصوصی گنگا پروجیکٹ پر تحقیق کے بعد بین الاقوامی ماہرین نے اس پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔
2019 میں مون سون سے پہلے اور بعد میں 60،60 نمونے لیے گئے۔ پورے دریا میں دس مقامات سے پانی کے نمونے لیے گئے اور یونیورسٹی آف پلائے ماؤتھ میں ان کا تجزیہ کیا گیا۔ اس میں بنگلہ دیش کے دریائے بھولا کو بھی دیکھا گیا اور یوں اندازہ لگایا گیا کہ مجموعی طور پر ایک سے تین ارب ذرات دریا میں مل رہے ہیں اور سمندر تک پہنچ رہے ہیں۔ اس تحقیق میں بھارت کے وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ، ڈھاکہ یونیورسٹی، وائلڈ ٹیم، یونیورسٹی آف ایکسیٹر اور دیگر ادارے بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے دریاؤں سے سمندروں یں روزنہ پلاسٹک کے 60 ارب ٹکڑے گررہے ہیں۔ اس تحقیق سے اس عمل کو بہت اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ اس پلاسٹک بھرے پانی کو 65 کروڑ سے زائد افراد استعمال کرتے ہیں۔ جن علاقوں سے پانی کے نمونے لیے گئے ہیں وہاں شہری، دیہی، زرعی، سیاحتی، مذہبی اور دیگر اہم مقامات موجود تھے۔ خیال ہے کہ یہاں سے پلاسٹک کا اخراج زیادہ ہورہا ہوگا اوراب اس کی تصدیق بھی ہوگئی ہے۔
دوسری جانب برطانیہ میں دریا اور جھیلوں کا پلاسٹک سمندر تک جانے کے لیے روکنے والے کسی نظام کے لیے حال ہی میں ایک کروڑ چالیس لاکھ یورو کی رقم بھی رکھی گئی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔