ٹریفک پولیس کی ناقص منصوبہ بندی سے کرکٹ میچ وبال جان بن گیا

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 23 جنوری 2021
آغا خان، لیاقت نیشنل سمیت دیگراسپتالوں تک ڈاکٹروں،طبی عملے اورملازمین کئی رکاوٹیں عبور کرکے گھنٹوں میں پہنچتے ہیں۔ فوٹو : پی پی آئی

آغا خان، لیاقت نیشنل سمیت دیگراسپتالوں تک ڈاکٹروں،طبی عملے اورملازمین کئی رکاوٹیں عبور کرکے گھنٹوں میں پہنچتے ہیں۔ فوٹو : پی پی آئی

 کراچی:  نیشنل اسٹیڈیم میں کرکٹ ٹیسٹ میچ کی وجہ سے سڑکوں کی بندش کے باعث نہ صرف شارع فیصل، راشد منہاس روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر ٹریفک کا دباؤ بڑھ جاتا ہے بلکہ اطراف میں 3 بڑے اسپتالوں تک پہنچنا بھی دشوار ہوگیا۔

نیشنل اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ اور ٹیموں کی پریکٹس اور سیکیورٹی کی ریہرسل کے دوران اطراف کی تمام سڑکیں عام ٹریفک کے لیے بند کردی جاتی ہیں، کرکٹ ٹیموں کی آمدورفت کے موقع پر شارع فیصل پر بھی ٹریفک وقتی طور پر روک دیا جاتا ہے، سیکیورٹی پر 5 ہزار سے زائد پولیس افسران اور اہلکار تعینات ہیں۔

اسٹیڈٰیم میں میچ کے موقع پر ایک جانب کارساز ، دوسری جانب حسن اسکوائر فلائی اوور ، تیسری جانب ملینیئم مال اور چوتھی جانب نیو ٹاؤن سے سڑکوں کو بند کردیا جاتا ہے، یہ سڑکیں بند ہونے سے ان کے متبادل سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام ہوتا ہے۔

کارساز بند ہونے سے اس کے متبادل روٹ شارع فیصل پر ملینئم بند ہونے سے راشد منہاس روڈ ، حسن اسکوائر فلائی اوور بند ہونے سے عیسیٰ نگری ، لیاقت آباد اور نیو ٹاؤن بند ہونے سے یونیورسٹی روڈ پر ٹریفک کا انتہائی دباؤ آجاتا ہے جس سے نہ صرف گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ جاتی ہیں بلکہ شہریوں کو شدید مشکلات اور ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نہ صرف مرکزی سڑکیں بلکہ متصل گلیوں میں بھی ٹریفک جام ہوجاتا ہے اس سلسلے میں رہائشی افراد کے لیے ٹریفک پولیس نیو ٹاؤن کی طرف سے گھروں تک جانے کا راستہ فراہم کرتی ہے۔

نیو ٹاؤن کی جانب سے ہی اسٹیڈیم روڈ پر آغا خان اسپتال اور لیاقت نیشنل اسپتال جانے کی اجازت دی جاتی ہے ، یونیورسٹی روڈ اور راشد منہاس روڈ پر بھی کچھ پوائنٹس سے رہائشیوں کو گزرنے دیا جاتا ہے اسی طرح اسٹیڈیم کے قریب مشرق سینٹر کے سامنے تیسرے بڑے اسپتال این آئی سی وی ڈی تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے گو کہ دیگر 2 اسپتالوں تک پہنچنا بھی آسان نہیں لیکن ان اسپتالوں تک ڈاکٹروں، طبی عملے اور اسپتالوں کے ملازمین اپنے شناختی مراحل سمیت کئی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہیں تب کہیں جاکر اسپتال تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

اسپتالوں ڈاکٹروں اور طبی عملے کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر ایسے اقدامات ضرور کیے جائیں جس سے طبی عملے کو مشکلات نہ ہوں اور وہ بروقت اسپتال پہنچ سکیں۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے ایمبولینس ڈرائیور ذیشان نے بتایا کہ عام شہریوں کی مشکلات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا لیکن سب سے بڑا مسئلہ انھیں مریضوں کو اسپتالوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔

چھیپا فاؤنڈیشن کے ایمبولینس ڈرائیور نظام الدین نے بتایا کہ ان حالات میں عام طور پر آدھے گھنٹے کا سفر ایک گھنٹے سے بھی زیادہ طویل ہوجاتا ہے۔ شارع فیصل پر ٹریفک کے باعث جناح اسپتال پہنچنا دشوار ہوتا ہے شارع قائدین اور ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک کے رش کی وجہ سے سول اسپتال کا سفر طویل اور اذیت ناک بن جاتا ہے اس صورتحال میں کئی بار مریض کی حالت نازک ہوجاتی ہے۔

اسی طرح ایئرپورٹ جانے کی دو بڑی شاہراہیں راشد منہاس روڈ اور شارع فیصل استعمال کی جاتی ہیں لیکن ان دونوں پر بڑھتے ہوئے رش کی وجہ سے مسافروں کو کئی گھنٹے قبل ہی گھروں سے نکلنا پڑتا ہے۔

ان تمام سڑکوں کی بندش کے اثرات دیگر متصل شاہراہوں شارع پاکستان ، نیو پریڈی اسٹریٹ ، ایم اے جناح روڈ اور صدر تک پہنچتے ہیں، ٹریفک پولیس کے اہلکار فیضان اور دانش کہتے ہیں کہ وہ اپنے دیگر ساتھیوں اور افسران کے ہمراہ متبادل سڑکوں پر شہریوں کی رہنمائی کے لیے موجود ضرور ہوتے ہیں لیکن جب ایک شاہراہ پر ضرورت سے زیادہ بوجھ پڑے گا تو وہ بھی اس موقع پر کسی بھی قسم کی مدد سے قاصر ہوتے ہیں ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود کئی مواقع پر انھیں شہریوں کی جانب سے ہتک آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عام شہریوں حسنین ، صفدر اور مہتاب نے کہا کہ صبح گھروں سے دفاتر تک تو کسی طرح پہنچ ہی جاتے ہیں لیکن شام کو سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے وہ ٹریفک جام کی اذیت کا شکار ہوتے ہیں اگر اتنی سخت سیکیورٹی اور شہر کے بیچوں بیچ اہم شاہراہیں بند کرکے کرفیو کا سماں پیدا کرکے کرکٹ میچ کے انعقاد کو کامیابی کہا جاتا ہے تو پھر بہتر ہے کہ انتظامیہ نیشنل اسٹیڈیم کو سپر ہائی وے یا نیشنل ہائی وے منتقل کردے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔